Maktaba Wahhabi

304 - 702
بگاڑ بھی آ جاتا ہے۔ جیسا کہ فرعون بگڑا ہوا تھا۔ یا پھر اس فطرت میں بگاڑ غیر کو اس کی محبت میں شریک کرنے سے آتا ہے۔جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَنْدَادًا یُّحِبُّوْنَہُمْ کَحُبِّ اللّٰہِ﴾ (البقرۃ: ۱۶۵) ’’اور لوگوں میں سے بعض وہ ہیں جو غیر اللہ میں سے کچھ شریک بنا لیتے ہیں ، وہ ان سے اللہ کی محبت جیسی محبت کرتے ہیں ۔‘‘ جبکہ رب تعالیٰ کی خالص کر کے عبادت کرنے والے اہل توحید کے دلوں میں اللہ کی محبت موجود ہوتی ہے۔ جس میں وہ کسی دوسرے کو شریک نہیں کرتا۔ اسی لیے رب تعالیٰ اپنے ہر فعل میں مطلق محمود ہے اور حامد پر احسان کرنے کی وجہ سے خاص حمد کا مستحق ہے جو حمد شکر ہے جبکہ پہلی قسم کی حمد اس کے ہر فعل پر ہے۔ جیسا کہ ارشاد ہے: ﴿اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ جَعَلَ الظُّلُمٰتِ وَ النُّوْرَ﴾ (الانعام: ۱) ’’سب تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور اندھیروں اور روشنی کو بنایا۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ﴾ (فاطر: ۱) ’’سب تعریف اللہ کے لیے ہے جو آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے۔‘‘ اب حمد، ذم کی ضد ہے اور حمد، محمود کے ایسے محاسن کو بتلانا ہے جو اس کی محبت سے ملے ہوں جبکہ ذم، مذموم کی ایسی برائیاں بتلانا ہے جن میں اس کا بغض بھی شامل ہو۔ لہٰذا محمود کی حمد اس کی محبت کے ساتھ اور مذموم کی مذمت اس کے بغض کے ساتھ ہی ملی ہوئی ہے، پس دنیا اور آخرت میں حمد اس پاک ذات کی ہے۔ آدم علیہ السلام نے سب سے پہلے جو الفاظ بولے تھے وہ ’’الحمد للّٰہ رب العالمین‘‘ کے تھے اور انھوں نے رب تعالیٰ سے سب سے پہلے جو الفاظ سنے تھے وہ ’’یرحمک ربک‘‘ کے الفاظ تھے اور اہل جنت کی آخری دعا یہ ہو گی ’’ان الحمد للہ رب العالمین‘‘ اور سب سے پہلے جنھیں جنت کی طرف بلایا جائے گا، وہ ’’حمد بیان کرنے والے‘‘ ہوں گے اور ہمارے پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ’’حمد کے پرچم‘‘ والے ہیں ۔ چنانچہ آدم علیہ السلام اور بعد کی ساری مخلوق اسی پرچم تلے ہو گی؛ مقامِ محمود والے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں ۔ یہی وہ مقام پر اولین و آخرت سب رشک کریں گے۔لہٰذا عبادت معبود کی محبت کے ساتھ ہوتی ہے اور حمد بھی محمود کی محبت کی بنا پر ہی کی جاتی ہے۔ پس وہ پاک ذات محمود بھی ہے اور محبوب بھی۔ [نماز اور سورت فاتحہ کی تقسیم] پھر فاتحہ کے پہلے نصف میں رب تعالیٰ کی حمد ہے اور اس کا آخر اس کی عبادت پر مشتمل ہے۔ چنانچہ اول ’’الحمد للّٰہ رب العالمین‘‘ ہے اور آخر ’’ایاک نعبد‘‘ ہے جیسا کہ حدیث تقسیم میں ثابت ہے۔ رب تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’ میں نے نماز کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان نصفا نصف تقسیم کر دیا ہے۔ پس اس کا نصف میرا ہے اور
Flag Counter