Maktaba Wahhabi

699 - 702
بیشک بعد میں جن لوگوں نے یہ بات کہی کہ : آل بیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے زیادہ حق دار تھے؛ ان میں جاہلیت کے عربی اور فارسی فرق کا اثر باقی تھا۔ لیکن اتنا فرق ہے کہ جاہلیت میں عرب رؤوساء کے اہل بیت کو مقدم سمجھا جاتا تھا اور اہل فارس میں بادشاہ کے اہل بیت کو مقدم سمجھا جاتا تھا۔ بعض لوگوں سے اس قسم کی باتیں نقل کی گئی ہیں ؛ جیسے حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ وغیرہ ۔ اس رائے کا اظہار کرنے والے کی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کوئی غرض نہ تھی۔بلکہ اس کی رائے کی روشنی میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نسبت خلافت کے زیادہ حق دار تھے۔ اگر یہ بات تسلیم بھی کر لی جائے کہ آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ہی ترجیح دیتے تھے ۔تو اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ آپ جانتے تھے کہ اسلام میں تقوی اور ایمان داری کو نسب پر ترجیح حاصل ہے ۔ تو آپ کا خیال یہ تھا کہ اس سے جاہلیت اور اسلام کے حکم کے مابین یگانگت قائم ہوجائے گی۔ مگر جو لوگ صرف اور صرف اسلام کے مطابق چلنا چاہتے تھے ‘ اور اسلام کے علاوہ کسی حکم پر راضی نہیں تھے ؛ یعنی ایمان اور تقوی کو ہی مقدم کرنا جانتے تھے ؛ ان میں سے دو افراد نے بھی ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت پر اختلاف نہیں کیا ۔ نہ اس قول کے قائلین نے اختلاف کیا اور نہ ہی کسی دوسرے نے کہ ان لوگوں میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر مضبوط ایمان اور تقوی والاکوئی انسان ان میں موجود ہو۔ تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو اپنے اختیار سے اور اطاعت گزاری کے ساتھ ان لوگوں نے باقی امت پر مقدم کیا۔ پس لوگوں کو آپ کو خلافت کے لیے مقدم کرنا آپ کے کمال ایمان و تقوی اور لوگوں کی آپ کی اطاعت گزاری کی دلیل ہے ۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے بھی اپنے نبی کو تقوی کی بنیاد پر تقدیم کے پیغام کے ساتھ مبعوث کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے جو چیز[یعنی ابو بکر رضی اللہ عنہ کی خلافت و امامت] اپنے نبی اور اس کی امت کے لیے اختیار کی تھی ؛ وہ ان سب کے حق میں افضل و بہتر تھی۔پس اللہ تعالیٰ ہی کے لیے تمام تر تعریف ہے کہ اس نے اس امت کو ہدایت بخشی اور ہمیں ان کے اطاعت گزاروں میں سے بنایا ۔ فصل:....امام معصوم کاتصور اورفہم کتاب و سنت [اشکال ]:شیعہ مصنف لکھتا ہے: ’’ تیسری بات یہ ہے کہ: امام کا حافظ شرع ہونا ضروری ہے، اس لیے کہ وحی ختم ہو چکی ہے اور کتاب وسنت میں ان جزئیات کی تفصیل نہیں ہے جو قیامت تک پیش آنے والے ہیں ۔ لہٰذا ایک منصوص من اللہ امام کا وجود ناگزیر ہے، جو خطاء اور کجی سے معصوم بھی ہو، تا کہ شرعی احکام میں عمداً یا سہواً کمی بیشی نہ کردے۔ یہ ظاہر ہے کہ بالاجماع حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سوا دوسرا کوئی شخص ان صفات کا حامل نہ تھا۔‘‘[انتہی کلام الرافضی] [جواب ]:اس کا جواب کئی طرح سے دیا گیا ہے: پہلی وجہ:....ہم اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ امام کا حافظ شریعت ہونا ضروری ہے۔ بخلاف ازیں امت کا حافظ شرع ہونا ضروری ہے۔یہ مقصد جس طرح ایک سے حاصل ہوتا ہے اجتماعی طو پر بھی حاصل ہو سکتا ہے۔بلکہ اہل تواتر کا
Flag Counter