Maktaba Wahhabi

358 - 702
فصل:....کلام حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ پر تنقید؛ اور اس پر ردّ [ اعتراض]: شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: اے کاش ! سقیفہ بنی ساعدہ کے دن میں دو شخصوں میں سے کسی ایک کی بیعت کرکے اس کو امیر بنا دیتا اور خود وزیر بن جاتا۔یہ کلام دلالت کرتا ہے کہ آپ خلافت کے اہل نہیں تھے اور نہ ہی اپنی ذات کے لیے امامت و خلافت پر راضی تھے۔‘‘[انتہی کلام الرافضی] [جواب]: اگر آپ نے یہ جملہ کہا ہو تو پھر یہ سب سے واضح دلیل ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ امام نہ تھے۔اس لیے کہ یہ جملہ کہنے والا انسان خوف الٰہی کی بنا پر ایسے کہہ رہا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو اس سے حق ولایت میں کوئی کوتاہی ہو جائے۔ * ہم کہتے ہیں کہ: حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ بات ازراہ فروتنی و انکساری اور خوف الٰہی کے پیش نظر کہی تھی۔یعنی اگر آپ کے علاوہ کوئی اور خلیفہ بن جاتا اور آپ اس کے وزیر ہوتے تو اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوجاتے۔ اگر اس حالت میں ان کے پاس حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے متعلق رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی نص صریح ہوتی تو وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ترجیح دیتے اور ان دو آدمیوں کا نام نہ لیتے۔ اس لیے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت سے متعلق نص صریح کے ہوتے ہوئے جیسا کہ تمہارا خیال ہے ان دو اشخاص کو خلیفہ بنانے سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا حق امامت ضائع ہو جاتا؛اور آپ ایک ظالم (جوبلااستحقاق خلیفہ بن گیا) کے وزیر ٹھہرتے؛اور اس طرح دوسروں کی دنیا کے عوض اپنی آخرت فروخت کردیتے۔ حالانکہ جو شخص اپنے اندر خوفِ الٰہی رکھتا ہو اور اپنے ذمہ داری ادا کرنا چاہتا ہو وہ ہر گز ایسا کبھی نہیں کر سکتا۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کومرنے والا اپنا قرض ادا کرنے کی وصیت کر جائے۔وارث یہ سوچے کہ اس کا مستحق فلاں شخص ہے ۔ تووہ قرض دیکر کسی کو اس قرض خواہ کے پاس بھیج دے۔پھر کہے : ہائے افسوس میں نے یہ قرض اس آدمی کے ہاتھ بھیجا ہوتا جس کا قرض اس سے زیادہ ہے۔ اور اسے یہ خوف محسوس ہورہا ہو کہ کہیں پہلا قاصد حق پورا ادا نہ کرے۔ یا اس میں کمی بیشی یا خیانت کرے۔ اوروہاں پر ایک شخص موجود ہو ‘ جو قرض خواہ ہو؛ اور اس کا دعوی ہو کہ مستحق انسان کے بجائے وہ اس قرض کا حق دار ہے۔ اگر وارث کو علم ہوتا کہ واقعی یہی انسان قرض کا مستحق ہے۔تووہ اسے ادا کردیتا او راسے غائب انسان کی طرف قاصد بھیجنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔ فصل:....جیش اسامہ رضی اللہ عنہ اور رافضی کا جھوٹا دعوی [اعتراض]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض الموت کی حالت میں متعدد بار فرمایا: اسامہ رضی اللہ عنہ کا لشکر بھیج دو۔ اﷲاس پر لعنت کرے جو اس لشکر میں شامل نہ ہو۔ تینوں اصحاب اسامہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے مگر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ کو اس میں شرکت کرنے سے روک دیا۔‘‘[انتہی کلام الرافضی] [جواب]:اس قصہ کے جھوٹ ہونے پر اتفاق ہے۔ سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے معمولی واقفیت رکھنے والا شخص جانتا
Flag Counter