Maktaba Wahhabi

487 - 702
کوئی اور شخص ان کی نسبت خلافت کا زیادہ حق دار ہے۔ بلکہ آپ کے نزدیک ان چھ سے بڑھ کر کوئی بھی خلافت کا حق دار نہ تھا۔ جیسا کہ آپ کا واضح بیان موجود ہے۔ لیکن اتنا ضرور ہے کہ آپ نے صرف خلیفہ متعین نہ کرنے کا عذر اور وجہ بتائی تھی کہ چونکہ ان حضرات میں کوئی نہ کوئی مانع موجود ہے؛ اس لیے آپ نے کسی متعین شخص کو خلیفہ بنانے سے احتراز کیا۔لیکن اس چھ اشخاص کو متعین کرنے سے احتراز اس لیے نہیں کیا کہ آپ کو علم تھا کہ ان چھ سے بڑھ کر کوئی بھی خلافت کا حق دار نہیں ہے۔ جو بات آپ صحیح سمجھتے تھے ؛ اور آپ جانتے تھے کہ اس پر اللہ تعالیٰ انہیں ثواب دیگا ایسی بات میں ان پر کوئی ملامت نہیں ۔ جیسے کہ چھ آدمیوں کی شوری مقرر کرنے کا معاملہ ہے ۔ اور جس چیز کاآپ کو خوف یا اندیشہ تھاکہ آپ پر موجب طعن ہوسکتی ہے تو آپ نے وہ نہیں کی ؛ یعنی ان میں سے کسی ایک متعین شخص کو خلیفہ نہیں بنایا۔بلکہ یہ معاملہ انہی کی صوابدید پر چھوڑ دیا۔ یہ آپ کے کمال عقل اور دینداری [اور خوف الٰہی ]کی نشانی ہے۔کسی ایک کو امیر اس لیے متعین نہیں کیا کہ آپ کو اللہ تعالیٰ کے سامنے حساب دینے کا بھی خوف بھی تھا ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿وَالَّذِیْنَ یُؤْتُوْنَ مَا آتَوا وَقُلُوْبُہُمْ وَجِلَۃٌ اَنَّہُمْ اِِلٰی رَبِّہِمْ رَاجِعُوْنَ ﴾۔[المؤمنون۶۰] ’’اور جو لوگ دیتے ہیں جو کچھ دیتے ہیں اور ان کے دل کپکپاتے ہیں کہ وہ اپنے رب کی طرف لوٹنے والے ہیں ۔‘‘ سنن ترمذی میں ہے: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ:’’ کیا یہ وہ لوگ ہیں جو شراب پیتے ہیں اور چوری کرتے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ اے صدیق کی بیٹی! نہیں ، بلکہ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو روزے رکھتے نماز پڑھتے صدقہ دیتے اور اس بات سے ڈرتے ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ان سے قبول نہ کیا جائے۔‘‘[ جامع ترمذی:ح 1122 ] اطاعت گزاری میں کوتاہی ہوجانے کا خوف کمال اطاعت میں سے ہے۔ اور اس سے زندگی میں اور مرنے کے بعد لوگوں کو مقلد بنانے اور ان پر حکم مسلط کرنے کا فرق واضح ہوجاتا ہے۔اس لیے کہ آپ اپنی حیات مبارکہ میں اپنے نائبین پر خود رقیب اور نگہبان تھے۔ ان کے اقوال و اعمال کا پتہ لگاتے رہتے تھے ۔ انہیں ہر سال حج کرنے کا حکم دیتے تاکہ ان کے اور عوام کے مابین فیصلے کیے جاسکیں ۔ پس اگر وہ کوئی ایسی بات کرتے جسے آپ نا پسند کرتے ہوں تو آپ کے لیے ممکن تھا کہ آپ اسے منع کرتے ۔اور اسکے مافات کی تلافی کرتے ۔بخلاف موت کے بعد کے ۔اس لیے کہ مرنے کے بعد تو آپ کے لیے ممکن نہیں تھا کہ کسی مکروھ چیز سے منع کرسکیں ۔او رنہ ہی اس کی تلافی ہوسکتی تھی۔ پس اس لیے آپ نے نا پسند کیا کہ مر کر کسی کو عوام پرمسلط کر جائیں ۔ جب کہ چھ کو متعین کرنے کا معاملہ صاف واضح ہے کہ اس وقت میں آپ کے نزدیک یہی لوگ اس امر کے اہل تھے۔ [ارکان شوری میں کمی ؟] [اعتراض ]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’[حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے افعال میں تناقض پایا جاتا ہے، جس کا ثبوت یہ ہے
Flag Counter