Maktaba Wahhabi

38 - 702
کا اظہار کرتے ہیں اور آپ سے محبت و دوستی نہیں رکھتے۔نیزخوارج کی تردید ہے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تکفیر کرتے اور آپ کو فاسق کہتے ہیں ۔کیونکہ اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گواہی دی ہے کہ آپ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتے ہیں ۔ علاوہ ازیں اس حدیث سے ان روافض کی تردید ہوتی ہے، جو کہتے ہیں کہ جو احادیث فضائل صحابہ میں وارد ہوئی ہیں وہ ان کے مرتد ہونے سے پہلے کی ہیں ۔ خوارج بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہی کہتے ہیں ۔ حالانکہ خوارج و روافض دونوں کے اقوال سرے سے باطل ہیں ۔[اہل سنت و الجماعت ان کے اقوال سے بری ہیں ]۔ کیونکہ اﷲتعالیٰ اس شخص سے خوشنودی کا اظہار نہیں کر سکتے جس کے متعلق اس کو معلوم ہو کہ اس کی موت کفر پر ہو گی۔اسی طرح یہ حدیث ان اہل ہویٰ اور گمراہ فرقوں جیسے معتزلہ ؛مروانیہ وغیرہ؛ پر بھی حجت ہے جو اپنی خواہشات کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بغض رکھتے ہیں ‘ اورآپ پر سب و شتم کرتے ہیں ۔ واقعہ مباہلہ ؍اور حدیث کساء: اسی طرح مباہلہ بھی آپ کی خصوصیت نہیں ، کیونکہ حضرت فاطمہ حسن و حسین رضی اللہ عنہم بھی اس میں آپ کے ساتھ شریک تھے۔جیسا کہ یہی لوگ چادر کے نیچے چھپائے جانے میں بھی آپ کے شریک تھے۔ پس اس سے معلوم ہوا یہ حدیث نہ ہی مردوں کے ساتھ خاص ہے ‘ اور نہ ہی ائمہ کے ساتھ خاص ہے۔بلکہ اس میں عورت ؛ بچے اور دوسرے لوگ بھی شریک ہیں ۔ کیونکہ مباہلہ کے وقت حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہماچھوٹے بچے تھے۔ مباہلہ کا واقع سن نو یا دس ہجری میں فتح مکہ کے بعد اس وقت پیش آیا جب نجران کے عیسائیوں کا وفد آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تھا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا تو اس وقت حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی عمر سات سال بھی نہیں تھی ۔ جب کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ آپ سے ایک سال بڑے ہیں ۔ان کو بلانے کی وجہ یہ تھی کہ حکم یہی ملا تھا کہ ہر گروہ اپنے قرابت داروں بیٹوں اورعورتوں کو بلائے اور خود بھی حاضر ہو۔ تو ان دونوں فریقین میں سے ہر ایک نے اپنے قریب تر رشتہ داروں کو بلانا تھا۔یہ لوگ نسب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے زیادہ قریبی تھے۔ اگرچہ بعض دوسرے لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک ان سے افضل تھے۔ اس لیے کہ آپ کو یہ حکم نہیں ملا تھا کہ اپنے افضل ترین اتباع کاروں کو بلائیں ۔ مقصود یہ تھا کہ لوگوں میں سب سے قریبی اورخاص افراد کو بلایا جائے۔ اس لیے کہ انسان کی فطرت میں ہے کہ [ایسے مواقع پر] اسے اپنی ذات اور اپنے قریبی خونی رشتہ داروں کا ایک خوف سا رہتاہے۔ یہی وجہ تھی کہ چادر والی روایت میں اور دعا میں بھی انہیں ہی خاص کیاہے۔ مباہلہ تو برابری کی بنا پر قائم تھا۔اس لیے عیسائیوں کو چاہیے تھا کہ وہ نسب کے لحاظ سے اپنے قریب تر رشتہ داروں کو بلا لائیں ۔ انہیں بھی اپنی اولاد کے بارے میں ایسے ہی خوف تھا جیسا خوف کسی اجنبی پر نہیں ہوسکتا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ لوگ مباہلہ کرنے سے رک گئے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ انہیں علم ہوچکا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حق پر ہیں ۔اور اگر انہوں نے مباہلہ کیا تو آپ کی بددعا ان کے لیے اور ان کے اقارب کے لیے قبول ہوجائے گی۔ اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ کبھی انسان کو
Flag Counter