Maktaba Wahhabi

369 - 702
میں انبیاء کرام علیہم السلام کے بعد سب سے افضل ترین ہستی ہیں ۔ صحیحین میں ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بنی اسرائیل کی سیاست ان کے انبیاء کرتے تھے۔ جب کوئی نبی وفات پا جاتا تو اس کا خلیفہ ونائب نبی ہوتا تھا۔اور میرے بعد کوئی نبی نہیں ؛اور عنقریب میرے بعد خلفاء ہوں گے اور بہت ہوں گے۔ صحابہ نے عرض کیا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں کیا حکم دیتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ جس کے ہاتھ پر پہلے بیعت کرلو اسے پورا کرو۔‘‘[ مسلم:ح۲۷۶] یہ بات سبھی جانتے ہیں جو کوئی فاضل کے بعد امور کی زمام کار سنبھالتا ہے ‘ جب اس میں پہلے کی سیاست کی نسبت کچھ کمی یا نقص ہو تووہ کھل کر سامنے آجاتی ہے۔ جب کو ئی بادشاہ اپنے سے پہلے بادشاہ کی جگہ ملکی نظم و نسق سنبھالتا ہے؛ یا کسی قاضی کے بعد کوئی قاضی بنتا ہے ؛ یا کسی شیخ کے بعد کوئی شیخ مسند نشین ہوتا ہے تو اس کے احوال سے بھی یہ بات واضح ہوجاتی ہے۔اس لیے کہ بعد والے میں اگر کوئی نقص ہو تووہ کھل کر سامنے آجاتاہے۔ اور پہلے نے معاملات کو جس نظم ونسق کے ساتھ سنبھال رکھا ہوتا ہے ‘ اس میں تبدیلی آجاتی ہے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ جناب سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم ؛ جو کہ ساری کائنات میں کامل سیاسی رہنما بھی تھے ؛ کے بعد حاکم بنے ۔ تواسلام میں کسی بھی لحاظ سے کوئی نقص یا کمی ظاہر نہیں ہوئی۔بلکہ آپ نے مرتدین سے قتال کیا ؛ اور معاملات کو اسی طرح بحال کیا جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں تھے۔اور لوگ جس دروازہ سے اسلام سے نکل گئے تھے آپ نے وہیں سے دوبارہ انہیں اسلام میں داخل کیا۔ پھر اہل کتاب کفار سے جہاد شروع کیا۔اور جو امور امت پر مخفی رہ گئے تھے ان کی تعلیم دی؛اور جب ان میں کمزوری پیدا ہوگئی تھی تو انہیں طاقتور بنایا۔اور جب بزدلی دکھانے لگے تو انہیں ہمت دلائی اور ان کی حوصلہ افزائی کی۔ اور ان کے ساتھ ایسے چلتے رہے جس میں لوگوں کے دین اوردنیا کی اصلاح تھی۔پس اللہ تعالیٰ نے آپ کے ذریعہ سے تعلیم ‘ دین اورقوت وطاقت کے ہر میدان میں اس امت کی اصلاح کی ۔ اور آپ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس امت کے لیے ان کے دین کی حفاظت کا ذریعہ بن گئے ۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت کے صحیح حق دار تھے۔ [حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور مسئلہ کلالہ :] [اعتراض]:شیعہ کا یہ کہنا: ’’ ابوبکر رضی اللہ عنہ کلالہ کی میراث سے آگاہ نہ تھے؛ اوراس مسئلہ میں اپنی رائے سے کہتے تھے۔‘‘ [جواب]:اس کا جواب یہ ہے کہ یہی بات آپ کے عظیم عالم ہونے کی دلیل ہے۔ آپ نے کلالہ کے بارے میں جو موقف اختیار کیا تھا؛ بعد میں جمہور علماء نے یہی مؤقف اختیار کیا ہے اور انہوں نے کلالہ کے متعلق حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی رائے کو ترجیح دی ہے۔ کلالہ وہ ہے جسکی اولاد ہو نہ والد۔جمہور علماء اسی کے قائل ہیں ۔ رائے اور اجتہاد سے فیصلہ کرنا تمام
Flag Counter