Maktaba Wahhabi

155 - 702
اور اگر یہ کہا جائے کہ: اگر اس کا اکیلے وہ کام کرنا اطاعت گزاری نہ ہو تو پھر اسے کوئی ثواب نہیں ملے گا؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ: جب اس نے پہلی باریہ فعل ادا کیا تھا؛ تواسے پتہ نہیں تھا کہ ایسے کرنا جائز نہیں ۔ یا وہ بھول گیا تھا۔ جیسے کوئی بغیر وضوء کے نماز پڑھ لے؛ یا قرأت بھول جائے؛ یا فرض سجدہ۔ تو اسے اتنے فعل پر ثواب ملے گا جتنا اس نے کردیا ہے۔اوربھول چوک پر اس کا کوئی مؤاخذہ نہیں ہوگا۔ لیکن اسے دوبارہ پڑھنے کا حکم دیا جائے گا۔کیونکہ اس نے پہلے وہ کام نہیں کیا جس کا اسے حکم دیا گیا تھا۔ جیسے کوئی سویا ہوا انسان وقت پر بیدار ہو جائے۔ تواسے نماز پڑھنے کا کہا جائے گا؛ کیونکہ نماز اس پر اپنے وقت پر فرض ہے؛ جب ایسا کرنا ممکن ہو۔ اور اگر ایسا نہ ہوتو جس وقت وہ بیدار ہو ؛اسی وقت اسے نماز پڑھنے کا کہا جائے گا۔ہاں جب اسے نماز دوبارہ پڑھنے کا کہا جاتا ہے؛ تواسے معلوم ہوجاتا ہے کہ اس فعل کا انفرادی صورت میں ادا کرنا جائز نہیں ۔ پس اسے اس کے منفردانہ ادا کرنے کا حکم نہیں دیا جائے گا۔ اگریہ کہا جائے: اگر کوئی انسان ترک واجب کے ساتھ جان بوجھ کر ایسا کرے؛ جس کے وجوب کا اس کو علم بھی ہو تو؟ اس کا جواب یہ ہے کہ: ایسا انسان عقاب کا مستحق ہے۔ کیونکہ وہ اس فعل کے کرنے سے گنہگار ہوا ہے۔ پس اس کا گناہ بھی تارک فعل کے گناہ کی طرح ہوسکتا ہے۔ اور اگریہ بات مان لی جائے کہ اسے ثواب بھی دیا جائے گا۔تو پھر بھی اسے وہ ایسے ثواب نہیں ملے گا جو عمل کو صحیح صحیح علی وجہ المطلوب اداکرنے پر ملتا ہے۔ بلکہ زیادہ سے زیادہ یہی کہا جاسکتا ہے جتنا کچھ اس نے صحیح کیا ہے؛ اس پر اسے ثواب ملے گا۔ یہ اس کے لیے ہے جسے پتہ ہو۔ جسے کوئی علم ہی نہ ہو کہ یہ واجب ہے اور یہ ممنوع ہے؛ تو اسے اس کے فعل پر ثواب ملے گا۔ فرمان الٰہی ہے: ﴿فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَّرَہٗ () وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَہٗ ()﴾ ’’ جو کوئی ذرا بھر نیکی کرے گا ؛ اسے دیکھ لے گا؛ اورجو کوئی ذرا بھر برائی کرے گا ؛ اسے دیکھ لے گا۔‘‘ پس قرآن کریم کی تلاوت ؛ اللہ تعالیٰ کا ذکر اور اس سے دعا کرنا تمام خیر کے کام ہیں ۔ مسلمان کبھی قبلہ سے ہٹ کر نماز نہیں پڑھتا۔ او رنہ ہی بغیر وضوء اور بغیر رکوع و سجدہ کے نماز پڑھتا ہے؛اگر کوئی ایسی حرکت کرے تو وہ اس پر عقاب اور مذمت کئے جانے کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ مگر اس کے ساتھ ہی اس کے لیے یہ بھی ممکن ہے کہ جب وہ کوئی ایسا کام کرے؛ اور اس کے ساتھ اسے یہ اعتراف بھی ہوکہ وہ گنہگارہے: وہ شریعت کا مذاق؛ توہین اور ٹھٹھہ نہ کرنا چاہتا ہو؛ او رنہ ہی شریعت کے احکام کو حقیر سمجھتا ہو؛ بلکہ اس سے سستی سے ایسا ہوگیا ہو ؛ تو جتنا کام اس نے درست کیا ہے؛ اس پر اسے ثواب ملے گا؛ جیسا کہ کوئی انسان حج میں کوئی ایسا واجب ترک کر دیتا ہے جس کا ازالہ دم ِ جبران سے ہو سکتا ہو؛ لیکن اس کا ثواب ایسے نہیں ہوگا جیسے اگر انسان اس فعل کو بالکل اس طرح سے بجا لائے جیسے اللہ تعالیٰ نے اس کا حکم دیا ہے۔ [ایمان کی تقسیم کا مسئلہ ] اس سے اہل بدعت خوارج ؛ اور مرجئہ کے شبہات کا جواب واضح ہوجاتا ہے؛ جو کہتے ہیں : ایمان بسیط ہے ؛ اس کے حصے نہیں ہوسکتے۔ اور نہ ہی ایمان کم ہوتا یا بڑھتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب ایمان کا کوئی جزء چلا جاتا ہے تو سارا
Flag Counter