Maktaba Wahhabi

632 - 702
یہی عالم حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا تھا۔ رعیت ان سے محبت کرتی تھی اور ان کے لیے دعاگو رہتی تھی۔ اور آپ رعیت سے محبت کرتے اور ان کے لیے دعا گورہتے تھے۔ ٭ جہاں تک حضرت سعید بن العاص کی ولایت کا تعلق ہے ؛ تو اہل کوفہ ہمیشہ اپنے عمال کی شکایت کرتے رہتے تھے۔ اس سے پہلے ان پر سعد بن ابی وقاص ؛ ابو موسی اشعری ‘عمار بن یاسر؛ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہم کو والی مقرر کیا گیا تھا ؛ مگر یہ لوگ پھر بھی شکایت ہی کرتے رہتے تھے۔ حالانکہ ان جلیل القدر صحابہ کرام کے اخلاق و عادات اور مشہور ومعروف تھے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں ان کی شکایتیں بڑھ گئی تھیں ۔ اور یہ بھی سبھی کو معلوم ہے کہ حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے اقارب کو ولایت کے مناصب تفویض کیے تھے جس کی وجہ سے لوگوں کو بھی باتیں کرنے کا موقع مل گیا اور بعض دوسری برائیاں بھی سامنے آئیں ۔ [حضرت علی رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں اختلاف]: [اشکال]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’ نوواں اختلاف :وہ ہے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت پر اتفاق اور آپ کی بیعت کرنے کے بعد پیدا ہوا۔ پہلے طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہما نے مکہ کی طرف خروج کیا۔پھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو لیکر بصرہ گئے؛ اور وہاں پر جنگ لڑی۔یہ جنگ جمل کے نام سے معروف ہے۔ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ و معاویہ رضی اللہ عنہ کے مابین اختلاف رونما ہوا۔ جس کا نتیجہ جنگ صفین کی صورت میں برآمد ہوا۔ پھر ابو موسیٰ کے خلاف عمرو بن عاص کی وعدہ خلافی قابل ذکر ہے ۔ پھرمارقہ کا ظہور ہوا۔جو کہ دین اسلام سے نکلے ہوئے تھے؛اور ان کے خلاف نہروان کا واقعہ پیش آیا۔ خلاصہ کلام! حضرت علی رضی اللہ عنہ خلیفہ برحق تھے؛اور حق آپ کے ساتھ تھا۔اور خوارج نے آپ کے خلاف خروج کیا تھا۔ مثلاً اشعث بن قیس و مسعر بن فَدَکی و زید بن حصن الطائی وغیرہ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں عبد اﷲ بن سبا جیسے غالی پیدا ہوئے اور ان دونوں فرقوں سے بدعت و ضلالت نے پَر پرُزے نکالے۔ان پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث صادق آتی ہے: ((محبٍ غال و مبغض قالٍ۔)) ’’محبت کی وجہ سے غلوکرنے والا اور بغض کی وجہ سے کوتاہی کرنے والا ۔‘‘ [یہ دونوں ہلاک ہونے والی اقوام ہیں ۔] ٭ پس چاہیے کہ اس انسان کے کلام کو انصاف کی نظر سے دیکھا جائے کیایہ شخص اپنے مشائخ کے موجب فتنہ سے نکل سکا ہے یا پھر ان سے بھی آگے بڑھ گیا ہے۔‘‘[انتہیٰ کلام الرافضی] [جواب]:ہم کہتے ہیں کہ: شہرستانی کی اس کتاب میں موجود اس کے کلام سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ شیعیت کی طرف میلان رکھتا تھا۔ وگرنہ اس نے ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہماکا ذکر کیا ہے‘ مگرکہیں پر یہ نہیں کہا کہ ان کے مخالفین کے برعکس حق ان کے ساتھ تھا۔[ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پہلے تینوں خلفاء بھی حق و صداقت کے حامل تھے] ۔ لیکن جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ذکر آیا تو
Flag Counter