Maktaba Wahhabi

270 - 702
وقت جنابِ اسحاق علیہ السلام شام میں تھے۔ ذبح کا حکم دینے سے مقصود یہ تھا کہ جناب ابراہیم علیہ السلام کے دل میں غیر اللہ کی محبت بالکل باقی نہ رہے اور یہ حکم اس وقت تھا جب جناب ابراہیم علیہ السلام کا ایک ہی بیٹا تھا۔ پھر جب آپ کے دو بیٹے ہو گئے تھے تو یہ مقصود تبھی حاصل ہو سکتا تھا جب آپ کو دونوں کے بیک وقت ذبح کرنے کا حکم دیا جاتا۔ لہٰذا جو بھی جنابِ اسحاق علیہ السلام کے ذبیح ہونے کا قائل ہے وہ دراصل محرفین کتاب اللہ یہود کا خوشہ چین ہے۔ جیسا کہ رب تعالیٰ نے بھی انھیں محرف قرار دیا ہے۔ ہم نے ایک مستقل رسالہ میں اس مسئلہ کو پوری شرح و بسط کے ساتھ ذکر کر دیا ہے۔ غرض اس مقام پر ہم یہ بیان کرنا چاہتے ہیں کہ رب تعالیٰ کے یہ دونوں خلیل حضرت رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابراہیم علیہ السلام توحید کے اعتبار سے اخص الخواص سے بھی اکمل ترین تھے۔ لہٰذا یہ بات جائز نہ ہو گی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں کوئی فردِ بشر ایسا بھی ہو جو کسی بھی پیغمبر سے زیادہ کام توحید والا ہو، چہ جائیکہ رسولوں ، پھر ان میں سے بھی اولوالعزم پیغمبروں سے حتیٰ کہ خلیلین رحمہم اللہ سے بھی زیادہ کامل توحید والا ہو۔ حضرات خلیلین رحمہم اللہ کی توحید کا کمال یہ الوہیت کے صرف ایک اکیلے اللہ کے لیے ثابت کرنے سے تھا اور یہ توحید یہ ہے کہ دل میں غیر اللہ کے لیے سرے سے کچھ بھی باقی نہ رہے بلکہ بندہ ہر شے میں رب تعالیٰ کا دوست ہو، اس کے محبوب میں فنا اور اس کے مبغوض سے نفور اور اس کی رضا میں راضی ہو۔ اس کی ناراضی سے ناراض ہو اور وہی امر کرے جو اللہ کرے اور اسی سے روکے جس سے اللہ روکے۔ [خواص کی توحید اور فنا پر بحث :] رہی دوسری قسم کی توحید جس کا نام موصوف نے ’’خواص کی توحید‘‘ رکھا ہے تو یہ توحید ربوبیت میں فنا ہونا ہے کہ بندہ اس بات کی شہادت دے کہ وہ اللہ اپنے ماسوا ہر شے کا رب ہے اور وہ اکیلا ہی ہر شے کا رب اور اس کا مالک ہے اور ’’فنا‘‘جب یہ توحید الوہیت میں ہوتو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ قلب پر اپنے معبود کا شہود، اس کی محبت اور اس ذکر غالب اور چھایا ہوا ہو،حتی کہ وہ کسی دوسری چیز کو محسوس نہ کرے۔اور رب تعالیٰ نے جواسباب اور حکمتیں ثابت فرمائی ہیں ؛ ان کا اسے علم بھی ہو ۔اور وہ امر و نہی کے ساتھ ایک اکیلے اللہ کی بلاشرکت غیرے عبادت کرے۔ لیکن اس کے دل پر اللہ واحد کا شہود غالب ہو، جیسا کہ کہتے ہیں کہ:’’ وہ اس کی موجودگی میں خود اپنے وجود سے، اور اپنے معبود کے ہوتے ہوئے اس کی عبادت سے اور اس کے مذکور کے ہوتے ہوئے، اس کے ذکر سے اور اس کے معروف کے ہوتے ہوئے اپنی معرفت سے بے خبر ہو گیا۔ جیسے کہا جاتا ہے کہ ایک آدمی کو دوسرے سے محبت تھی، ایک دوسرا محبوب دریا میں گر گیا تو محب نے بھی خود کو اس کے پیچھے دریا میں گرا لیا۔ اس پر محبوب نے پوچھا: میں تو اتفاقاً گرا تھا ؛بھلا تم نے خود کو کیوں گرا لیا؟ اس پر اس محب نے کہا: ’’تمھاری وجہ سے میں خود سے غائب ہو گیا، تومیں نے یہ گمان کیا کہ تو ’’میں ‘‘ ہے۔ ایسی فنا والے پر جب یہ کیفیت غالب آ جاتی ہے تو وہ معذور کہلاتا ہے۔ کیونکہ رب تعالیٰ کے ذکر کے غلبہ کی وجہ سے
Flag Counter