Maktaba Wahhabi

180 - 702
’’تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لیے پیدا کی گئی ہے تم نیک باتوں کا حکم کرتے ہو اور بری باتوں سے روکتے ہو اور اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہو ۔‘‘ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں : ’’ تم لوگوں میں سے ان کے لیے بہترین لوگ ہو‘ تم انہیں زنجیروں میں جکڑ کر لاتے ہو تاکہ انہیں جنت میں داخل کرسکو۔‘‘ [1] اس آیت میں خبر دی گئی ہے کہ یہ امت بنی آدم میں سے بہترین امت ہے ۔ اس لیے کہ یہ لوگوں کو سزا دیتے ہیں انہیں قتل کرتے ہیں اور قیدی بناتے ہیں ؛ اس سے مقصود ان کے ساتھ احسان کرنا ہوتا ہے ۔ اور انہیں اللہ تعالیٰ کی کرامت اور اس کی رضامندی کی طرف نکالنا ہے تاکہ جنت میں داخل ہوسکیں ۔ یہی حال اہل بدعت روافض اور دوسرے لوگوں پر رد کا ہے ۔ اگر اس سے مقصود ان کے لیے حق بیان کرنا ‘ اور خلق کی ہدایت اوران کے لیے رحمت اور ان کے ساتھ احسان نہ ہو تو پھر یہ عمل نیکی کا کام نہیں ہوسکتا۔ جب انسان بدعت یا گناہ کی مذمت میں سختی کرتا ہے تو اس سے مقصود اس گناہ یا بدعت میں موجود برائی کا بیان کرنا ہوتاہے تاکہ لوگ اس سے بچ سکیں ۔جیسا کہ نصوص کی وعید میں پایا جاتا ہے۔ کبھی کسی گناہ کی وجہ سے کسی انسان سے لاتعلقی اختیار کی جاتی ہے ‘ اس سے مقصود اس انسان کو خبردار کرنا اورگناہ و بدعت سے روکنا ہوتا ہے۔ یہ اس کے لیے رحمت اور احسان کا مظہر ہے تشفی اور انتقام کا مظہر نہیں ۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ تبوک سے پیچھے رہ جانے والے تین صحابہ سے قطع تعلقی کرلی تھی۔جب غزوہ سے پیچھے رہ جانے والے اپنا اپنا عذر پیش کرنے کے لیے آئے ؛ اور جھوٹی قسمیں اٹھاکر عذر پیش کرتے رہے ۔ مگر یہ تین حضرات آئے اور انہوں نے سچ بولا ؛ اور انہیں قطع تعلقی کی سزا سے دوچار ہونا پڑا۔پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی سچائی کی برکت سے ان کی توبہ قبولی فرمائی۔ [تکفیر کے اصول] اس کی بنیاد دو مسئلوں پر ہے: پہلا مسئلہ : گناہ کی وجہ سے گنہگار کا کفر لازم نہیں آتا ۔ جیسا کہ خوارج کہتے ہیں ۔ بلکہ ایسا انسان ہمیشہ جہنم میں بھی نہیں رہے گا ؛ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت سے محروم بھی نہیں ہوگا۔ جیسا کہ معتزلہ کہتے ہیں ۔ دوسرا مسئلہ : وہ متأول جس کی نیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع ہو؛ اسے کافر نہیں کہا جائے گا؛ بلکہ اگر وہ اجتہاد کرنے میں خطاء کا مرتکب ہوا ہوتو اسے فاسق بھی نہیں کہا جائے گا۔ لوگوں کے ہاں علمی مسائل میں یہ مشہور بات ہے ۔ جب کہ اعتقادی مسائل میں بہت سارے لوگوں نے خطاء کرنے والوں کو کافر کہا ہے ۔ اس قول کا قائل صحابہ کرام اور تابعین میں سے کوئی ایک بھی معلوم نہیں ہوسکا؛ اور نہ ہی مسلمان ائمہ میں سے کسی ایک نے ایسی بات کہی ہے۔ اصل میں یہ ان
Flag Counter