Maktaba Wahhabi

188 - 702
عرفان نہ ہو، وہ اس بات کا کہ رب تعالیٰ اسے آخرت میں معاف رفمائے اس شخص سے زیادہ مستحق ہے، جو خطا کا جان بوجھ کر اور اس کے گناہ ہونے کو جاننے کے باوجود ارتکاب کرے۔ بے شک ایسا شخص نافرمان اور مستحق عذاب ہے۔ جبکہ پہلا شخص گناہ کے باب میں متعمد نہیں بلکہ خطاکار ہے اور رب تعالیٰ اس امت کے خطا اور نسیان سے درگزر کرنے والے ہیں ۔ دنیا میں عقوبت مسلمان سے گناہ کے ضرر کو دور کرنے کے لیے ہے اگرچہ وہ آخرت میں اس سے بہتر ہو جسے دنیا میں عقوبت نہیں دی گئی۔ جیسا کہ حدود کے مرتکب مسلمان کو دنیا میں عقوبت دی جاتی ہے جبکہ ذمی یہود و نصاریٰ کو عقوبت نہیں دی جاتی۔ حالانکہ مسلمان بلاشبہ آخرت میں ان ذمیوں سے بہتر ہوں گے۔ اسی طرح وہ بدعتی بھی ہے جو اپنی خواہش کی خاطر بدعت پر چلتا ہے ناکہ اسے دین سمجھتے ہوئے اس پر عمل کرتا ہے اور اپنی خواہش کے خلاف حق سے منہ موڑ لیتا ہے، رب تعالیٰ اسے اس کی خواہش نفس پر سزا دے گا۔ ایسا شخص دنیا و آخرت میں عقوبت کا مستحق ہوتا ہے۔ رہے وہ اسلاف جنھوں نے خوارج وغیرہ کو فاسق کہا ہے جیسا کہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انھوں نے خوارج کے بارے میں یہ آیت پڑھی تھی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ مَا یُضِلُّ بِہٖٓ اِلَّا الْفٰسِقِیْنo الَّذِیْنَ یَنْقُضُوْنَ عَہْدَ اللّٰہِ مِنْ بَعْدِ مِیْثَاقِہٖ وَ یَقْطَعُوْنَ مَآ اَمَرَ اللّٰہُ بِہٖٓ اَنْ یُّوْصَلَ وَ یُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْخٰسِرُوْنَo﴾ (البقرۃ: ۲۶۔۲۷) ’’اور وہ اس کے ساتھ فاسقوں کے سوا کسی کو گمراہ نہیں کرتا۔ وہ لوگ جو اللہ کے عہد کو، اسے پختہ کرنے کے بعد توڑ دیتے ہیں اور اس چیز کو قطع کرتے ہیں جس کے متعلق اللہ نے حکم دیا کہ اسے ملایا جائے اور زمین میں فساد کرتے ہیں ، یہی لوگ خسارہ اٹھانے والے ہیں ۔‘‘ تو اس سے وہ لوگ مراد ہیں جو قصداً گناہ اور فسق و فجور کا اور بدعت اور خواہش نفس کا ارتکاب کرتے ہیں ۔ بالخصوص جب لوگوں میں تفرقہ پڑ جائے اور یہ آدمی اپنے لیے اور اپنے ساتھیوں کے لیے ریاست، سرداری اور بڑائی کا طلب گار ہو۔ جب کفار سے قتال کرنے والا مسلمان تین قسم کا ہو سکتا ہے: (۱) ایک وہ جو بہادر کہلوانے کے لیے لڑے (۲) دوسرا وہ جو قومی حمیت ے لیے لڑے اور (۳) تیسرا وہ جو ریاکاری اور دکھلاوے کے لیے لڑے اور ان تینوں میں سے کوئی بھی اللہ کا مجاہد نہیں ۔ تو پھر ان بدعتیوں کا کیا حال ہو گا جو ان بدعات کی خاطر لڑتے اور جھگڑتے ہیں ؟ (بھلا وہ مجاہد فی سبیل اللہ کیونکر ہو سکتے ہیں )۔ کہ یہ لوگ ان بدعات کا اظہار شجاعت اور غیرت و حمیت کے لیے ارتکاب کرتے ہیں اور بسا اوقات رب تعالیٰ کی ہدایت سے ہٹی ان خواہشات کی پیروی میں انھیں عقوبت بھی سہنی پڑتی ہے۔ جو صرف ان بدعات کے ارتکاب میں اجتہادی خطا کا نتیجہ نہیں ہوتا۔ اسی لیے امام شافعی رحمہ اللہ فرماتا کرتے تھے کہ ’’میں ایک ایسے علم میں کلام کروں جس کی بابت مجھے یہ کہا جائے کہ تم نے خطا کی، یہ مجھے ایسے علم میں کلام کرنے سے زیادہ محبوب ہے کہ جس کی بابت مجھے یہ کہا جائے کہ تم نے کفر کیا۔‘‘ اہل بدعت کا ایک عیب یہ بھی ہے کہ وہ ایک دوسرے کو کافر کہنے میں لگے رہتے ہیں اور اہل علم کی قابل تعریف
Flag Counter