Maktaba Wahhabi

158 - 702
کسی واجب کے ترک کرنے یا حرام فعل کے ارتکاب پر ایمان کی نفی کرنا ایسے ہی جیسے چند دوسری چیزوں کی وجہ سے نفی وارد ہوئی ہے ؛ جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (( لا صلاۃ إِلا بأُمِ القرآنِ ۔))[1] ’’سورت فاتحہ پڑھے بغیر کوئی نماز نہیں ہوتی ۔‘‘ اور جیسے نماز میں خطا کار کے حق میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (( ارجِع فصلِ فِإنک لم تصلِ۔ ))[سبق تخریجہ ] ’’جاؤ اور نماز پڑھو؛ بیشک تم نے نماز نہیں پڑھی ۔‘‘ اورصف کے پیچھے اکیلے نماز پڑہنے والے کو نماز دہرانے کا حکم دیتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (( لا صلاۃ لِفذ خلف الصفِ ۔))[سبق تخریجہ ] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (( من سمِع النِداء ثم لم یجِب مِن غیرِ عذر فلا صلاۃ لہ۔ )) [2] ’’ جو اذان کی آواز سنے؛ اورپھر بلا عذر مسجد نہ آئے تو اس کی نماز نہیں ہوتی ۔‘‘ فقہائے کرام رحمہم اللہ میں سے جو کوئی یہ کہے: یہ نفی کمال کے لیے ہے۔ تو اس سے کہا جائے گا: اگر آپ کی مراد مستحب کمال ہے؛ تو یہ دو وجوہات کی بنا پر باطل ہے۔ اول : یہ چیز شارع علیہ السلام کے الفاظ میں کہیں بھی نہیں پائی جاتی کہ آپ انسان کے کسی ایسے فعل کی نفی کریں جو اس نے مطلوب واجب طریقہ پر ادا کیا ہو۔ اورپھر بعض مستحبات کے ترک کرنے کی وجہ سے اس کی نفی کردیں ۔ بلکہ شارع علیہ السلام کسی فعل کی نفی اس وقت تک نہیں کرتے جب تک اسے اس طرح ادا نہ کردیا جائے جیسے وہ واجب ہوا ہے۔ دوم: اگر ترک مستحب کی وجہ سے نفی کی جائے؛تو پھر عوام الناس کی نہ ہی کوئی نماز ہوگی اور نہ ہی روزہ۔ اس لیے کہ کمال کے مستحبات مختلف ہوتے ہیں ۔ اور کوئی ایک بھی ایسے نماز نہیں پڑھ سکتا جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی تھی۔ تو
Flag Counter