Maktaba Wahhabi

157 - 702
کرتی ہے۔ اگر اس میں کسی قدر کمی رہ جائے تو جتنے اعمال بجالائے ہیں ؛ ان پر اسے ثواب ضرور ملے گا۔ اگر آپ یہ کہیں کہ:جب کسی عبادت کے ارکان میں سے کوئی رکن رہ جائے تو فقہائے کرام رحمہم اللہ علی الاطلاق کہتے ہیں : اس کی نماز باطل ہوگئی؛ روزہ باطل ہوگیا؛ حج باطل ہوگیا۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ:فقہاء یہ جملہ اس لیے کہتے ہیں کہ ان کے نزدیک باطل صحیح کی ضد ہے۔ اور ان کے عرف میں صحیح وہ ہے جس سے مقصود حاصل ہو جائے؛ اوراس پر حکم مرتب ہو۔ وہ حکم ہے: برأت ذمہ ۔ اسی لیے وہ کہتے ہیں : صحیح وہ ہے جس سے قضاء ساقط ہو جائے۔ پس ان کا باطل کہنا یہ معنی رکھتا ہے کہ: اس کی قضاء واجب ہے۔ یہ معنی ہر گز نہیں ہوتا کہ اسے اس فعل پر آخرت میں کوئی ثواب نہیں ملے گا۔ کلام اللہ میں اور حدیث مبارک میں یہ نفی یوں ہی وارد ہوئی ہے۔ جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (( لا یزنِی الزانِی حِین یزنِی وہو مؤمِن ۔)) ’’زانی زنا نہیں کرتا؛ جب وہ زناکرے اور وہ مؤمن ہو۔‘‘[1] اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (( لا إِیمان لِمن لا أمانۃ لہ، ولا دِین لِمن لا عہد لہ ۔))[2] ’’اس کا کوئی ایمان نہیں جس میں امانت دار نہیں ؛ اور اس کا کوئی دین نہیں جو وعدہ وفا نہیں کرتا ۔‘‘ اللہ تعالیٰ کا فرمان گرامی ہے: ﴿ اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُہُمْ ﴾[الانفال ۲] ’’(اصل) مومن تو وہی ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں ۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ کا فرمان گرامی ہے: ﴿ اِِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا وَجَاہَدُوْا بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنفُسِہِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اُوْلٰٓئِکَ ہُمُ الصَّادِقُوْنَ﴾[الحجرات ۱۵] ’’مومن تو وہی ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایما ن لائے، پھر انھوں نے شک نہیں کیا اور انھوں نے اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ اللہ کی راہ میں جہا د کیا۔ یہی لوگ سچے ہیں ۔‘‘
Flag Counter