Maktaba Wahhabi

61 - 315
٭ اخص الخواص کے لیے وحدۃ الوجود کا مشاہدہ یہی حال یونان کے فلاسفے کا تھا۔وہ خیال کرتے تھے کہ دکھائی نہ دینے والے خدا کا تصور صرف اہل علم و حکمت ہی کر سکتے ہیں، عوام کے لیے اسی میں عافیت ہے کہ وہ دیوتاؤں کی پرستاری میں مشغول رہیں۔لیکن قرآن نے حقیقت و مجاز یا خاص و عام کا کوئی امتیاز باقی نہ رہنے دیا۔اس نے سب کو اللہ تعالیٰ کی عبادت کی ایک ہی راہ دکھائی اور سب کے لیے صفات الٰہی کا ایک ہی تصور پیش کردیا۔اس نے علماء سے لے کر جاہلوں تک اور ذہین فطین سے لے کر کند ذہن تک، سب کو اللہ تعالیٰ کی عبادت کی ایک ہی راہ دکھائی اور سب کے لیے ایمان و اعتقاد کا ایک ہی دروازہ کھولا۔اس کا تصور جس طرح ایک عالم اور عارف کے لیے باعث غور و فکر ہے اسی طرح ایک کسان اور چرواہے کے لیے بھی سرمایۂ تسکین ہے۔ اس سلسلے میں معاملے کا ایک اور پہلو بھی قابل غور ہے۔ہندوستان میں خواص اور عوام کے اللہ کی عبادت کے تصورات میں جو فرق مراتب ملحوظ رکھا گیا، اس میں کسی دائرۂ فکر کو بھی اتنا تنگ اور بے لچک نہیں رکھا گیا کہ کسی دوسرے دائرے کی اس میں گنجائش نہ ہو۔یہاں خواص توحید کی راہ پر گامزن ہوئے لیکن عوام کے لیے ’توحید‘ کے ساتھ ساتھ دیوتاؤں کی پرستش اور مورتیوں کی عبادت کی راہیں بھی کھلی چھوڑ دی گئیں۔گویا ہر عقیدے کو جگہ دی گئی اور ہر عمل کے لیے گنجائش نکالی گئی جیسا کہ ایک وید کا ماننے والا جانتا ہے کہ اصل حقیقت، شرک اور بت پرستی کے عقائد سے بالاتر ہے لیکن یہ جاننے کے باوجود بھی وہ بت پرستی کو برا تصور نہیں کرتا کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ عوام کے لیے یہ جائز ہے۔ یہ مفاہمت اور رواداری نہیں بلکہ بہت سے لوگوں کو گمراہی کے سپرد کر دینے کے مترادف ہے کیونکہ جب ہم خاص نتیجے پر پہنچ گئے ہیں اور خاص اعتقاد اور عمل کی روشنی سامنے آگئی ہے تو ہر عام و خاص کے لیے اس پر کاربند رہنا ضروری ہے اور اسے مضبوطی سے تھامنا لازمی ہے۔اگر اس میں لچک پیدا ہوگی تو یہ رواداری نہیں، اعتقاد کی خرابی اور یقین کا فقدان ہوگا۔ قرآن کے تصور الٰہی کی بنیادی خصوصیت یہی ہے کہ اس نے کسی طرح کی اعتقادی مفاہمت اس بارے میں روا نہیں رکھی۔وہ اپنے توحیدی (اثباتی) اور تنزیہی تصور میں مکمل طور پر بے میل اور بے لچک
Flag Counter