Maktaba Wahhabi

50 - 315
تذکرہ بھی سابقہ اوراق میں گزر چکا ہے۔ اصل یہ ہے کہ قرآن سے پہلے انسانی فکر اس درجہ بلند نہیں ہوئی تھی کہ مشابہت کا پردہ ہٹا کر صفات الٰہی کا جلوہ دیکھ لیتی، اس لیے ہر تصور کی بنیاد تمثیل و تشبیہ پر رکھی گئی، مثلاً: تورات میں ہم دیکھتے ہیں کہ ایک طرف زبورکے ترانوں اور یَشْعَیَا کی کتاب میں اللہ تعالیٰ کے لیے شائستہ صفات کا ذکر ہے اور دوسری طرف انسانی اوصاف و جذبات کے ساتھ تشبیہ کی بھرمار ہے۔سیدنا مسیح نے جب چاہا کہ رحمت الٰہی کا عالمگیر تصور پیدا کریں تو (موجودہ، محرف) انجیل کے مطابق وہ بھی مجبور ہوئے کہ خدا کے لیے باپ کی تشبیہ سے کام لیں۔اسی تشبیہ سے ظاہر پرستوں نے ٹھوکر کھائی اور یہ عقیدہ بنا لیا کہ سیدنا مسیح اللہ کے بیٹے ہیں۔لیکن ان تمام تصورات کے بعد جب ہم قرآن کی طرف رخ کرتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اچانک فکر و تصور کی ایک نئی، انتہائی ترقی یافتہ، دنیا سامنے آگئی۔یہاں الٰہی اوصاف و افعال کا اس طرح اثبات کیا گیا ہے کہ تمثیل و تشبیہ کے تمام پردے ہٹا دیے گئے ہیں۔یہاں تصورِ الٰہی سے انسانی اوصاف و جذبات کی مشابہت ختم ہو جاتی ہے، ہر گوشے میں مجاز کی جگہ حقیقت لے لیتی ہے اور مخلوق سے مشابہت کا شائبہ تک باقی نہیں رہتا۔اللہ کی بے عیبی و تنزیہ اس مرتبہ کمال تک پہنچ جاتی ہے: ﴿لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ ﴾ ’’اُس جیسی کوئی چیز موجود ہی نہیں۔‘‘[1] یعنی کسی چیز سے بھی تم اسے مشابہ نہیں ٹھہرا سکتے، نیز فرمایا: ﴿ لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ ﴾ ’’انسان کی نگاہیں اسے نہیں پاسکتیں لیکن وہ انسان کی نگاہوں کو دیکھ رہا ہے اور وہ بڑا ہی باریک بین اور باخبر ہے۔‘‘[2] نیز فرمایا: ﴿قُلْ هُوَ اللّٰهُ أَحَدٌ (1) اللّٰهُ الصَّمَدُ (2) لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ (3) وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ ﴾ ’’کہہ دیجیے: اللہ کی ذات یگانہ ہے، بے نیاز ہے، جس کے سب محتاج ہیں، اسے کسی کی احتیاج
Flag Counter