Maktaba Wahhabi

35 - 315
یہودی تصور جو توحید کا دعویدار تھا اور جس کے نزدیک بت پرستی کی کوئی صورت جائز نہیں تھی، وہ بھی تشبیہ و تمثیل سے آلودہ نظر آتا ہے۔اللہ تعالیٰ کا سیدنا یعقوب سے کشتی کرنا، کوہ طور پر شعلوں کے اندر نمودار ہونا، سیدنا موسیٰ علیہ السلام کا اللہ کو پیچھے سے دیکھنا، اللہ تعالیٰ کا جوش و غضب میں آ کر کوئی کام کر بیٹھنا اور پچھتانا، بنی اسرائیل کو اپنی چہیتی بیوی بنا لینا اور پھر اس کی بدچلنی پر ماتم کرنا، ہیکل کی تباہی پر اس (اللہ) کا نوحہ کرنا، اس کی انتڑیوں میں درد کا اٹھنا اور کلیجے میں سوراخ پڑ جانا، تورات کا عمومی اسلوب بیان ہے۔ تورات کے صحیفوں سے پتہ چلتا ہے کہ یہودیوں کے نزدیک اللہ تعالیٰ بس غیظ و غضب اور انتقام لینے والا ہے۔اس کے علاوہ خدا کے بارے میں وہ تمثیل کا عقیدہ رکھتے تھے۔ان کی کتابوں میں اللہ تعالیٰ کا بار بار ایک شکل میں ظاہر ہونا بیان کیا گیا ہے، یعنی کبھی کسی چیز کے ساتھ مشابہت اور کبھی کسی دوسری شے سے مماثلت۔ان کے نزدیک خدا کا انسان سے رشتہ اسی نوعیت کا رشتہ ہے، جیسے ایک شوہر کا اپنی بیوی سے ہوتا ہے۔شوہر نہایت غیرت مند ہوتا ہے، وہ اپنی بیوی کی ساری خطائیں معاف کر دے گا لیکن یہ جرم معاف نہیں کرے گا کہ اس کی محبت میں کسی دوسرے مرد کو بھی شریک کرے۔اسی طرح بنی اسرائیل کا خدا بھی بہت غیرت والا ہے۔اس نے اسرائیل کے گھرانے ہی کو اپنی چہیتی اور لاڈلی بیوی بنایا ہے، اس لیے بنی اسرائیل کی بیوفائی اور غیر قوموں سے آشنائی اس کو بڑا غصہ دلاتی ہے اور ضروری ہے کہ وہ اس جرم کے بدلے سخت سزائیں دے، چنانچہ احکام عشرہ (Ten_Commandments) میں ایک حکم یہ بھی تھا: ’’تو کسی چیز کی صورت نہ بنا ئیو اور نہ اس کے آگے جھکیو کیونکہ میں خداوند تیرا خدا رشک کرنے والا ایک بہت ہی غیور خدا ہوں۔‘‘ یہودیوں کے ہاں شوہر کے رشتے کی یہ مشابہت جو مصر سے ان کے نکلنے کے بعد ظاہر ہوئی، آخری دور تک قائم رہی۔یہودیوں کی ہر گمراہی پر خدا کے غضب کا اظہار ایک غضب ناک شوہر کا پرجوش اظہار ہوتا ہے جو اپنی چہیتی بیوی کو اس کی ایک ایک بے وفائی یاد دلا رہا ہو۔مشابہت کا یہ طریقہ بظاہر کتنا ہی مؤثر اور شاعرانہ دکھائی دے لیکن اس میں شک نہیں کہ یہ خدا کے تصور کے لیے ایک ابتدائی درجے کا غیر ترقی یافتہ تصور تھا۔
Flag Counter