Maktaba Wahhabi

31 - 315
میں ہے۔آگے چل کر اس اضافی انکار نے جو خاص مقصد کے لیے تھا، مطلق انکار کی شکل پیدا کر لی اور پھر برہمنی مذہب کی مخالفت کی شدت نے معاملے کو اور دور تک پہنچا دیا۔ بہر حال خود گوتم بدھ اور اس کی تعلیم کے شارحین کی وضاحتیں اس بارے میں چاہے کچھ بھی رہی ہوں مگر یہ بالکل سچی بات ہے کہ اس کے ماننے والوں نے خدا کے تصور کی خالی نشست بہت جلد بھر دی۔انھوں نے اس مسند کو خالی دیکھا تو خود گوتم بدھ کو وہاں لا کر بٹھا دیا اور پھر اس نئے معبود کی پوجا اس قدر جوش و خروش کے ساتھ شروع کر دی کہ آدھی سے زیادہ دنیا اس کے بتوں سے بھر گئی! صورت حال ایسی ہوگئی کہ گوتم بدھ کی وفات پر ابھی زیادہ زمانہ نہیں گزرا تھا کہ بدھ کو ماننے والوں کی اکثریت نے اس کی شخصیت کو عام انسانی سطح سے بہت اونچا دیکھنا شروع کر دیا اور اس کے آثار و تبرکات کی پوجا کا رجحان بڑھنے لگا تھا۔اس کی وفات کے کچھ عرصے بعد جب مذہب کی پہلی بڑی مجلس راج گیری میں منعقد ہوئی اور اس کے شاگرد خاص ’’آنند‘‘ نے اس کی آخری وصیتیں بیان کیں تو کہا جاتا ہے کہ لوگ اس کی روایت پر مطمئن نہ ہوئے اور اس کے خلاف ہوگئے کیونکہ اس کی روایتوں میں انھیں وہ بہت اونچی انسانی بڑائی نظر نہیں آئی جسے اب ان کی طبیعت ڈھونڈنے لگی تھی۔تقریباً سو برس بعد جب دوسری مجلس ویشالی (مظفر پور) میں منعقد ہوئی تو اب مذہب کی بنیادی سادگی اپنی جگہ کھو چکی تھی اور اس کی جگہ نئے نئے نظریات اور ملے جلے عقیدوں نے لے لی تھی۔اب مسیحی مذہب کے اقانیم[1] ثلاثہ کی طرح جو پانچ سو برس بعد ظہور میں آنے والا تھا، ایک شمنی اقانیم کا عقیدہ بدھ کی شخصیت کے گرد ہالے کی طرح چمکنے لگا اور اسے عام انسانی سطح سے بہت اُونچا مان لیا گیا، یعنی بدھ کی ایک شخصیت کے اندر تین وجودوں کی پیدائش ہوگئی۔اس کی تعلیم کی شخصیت، اس کے دنیاوی وجود کی شخصیت اور اس کے حقیقی وجود کی شخصیت جو لوک (بہشت) میں رہتی ہے۔دنیا میں جب کبھی بدھ کا ظہور ہوتا ہے تو یہ اس حقیقی وجود کا ایک سایہ ہوتا ہے۔نجات پانے کے معنی یہ ہوئے کہ آدمی حقیقی بدھ کی اُسی سب سے بلند بہشت میں پہنچ جائے۔
Flag Counter