Maktaba Wahhabi

298 - 315
نہیں ہوتا، کسی کی یہ شان عطائی ہو کتاب و سنت اور فہم سلف سے قطعاً ثابت نہیں ہے۔ سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں جب آپ کے لخت جگر سیدنا ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی تو اسی روز سورج کو گرہن لگ گیا۔لوگوں نے کہا: ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات سے سورج کو گرہن لگا ہے۔اس موقع پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سورج اور چاند کو کسی کی موت یا زندگی کی وجہ سے گرہن نہیں لگتا…۔‘‘[1] مطلب یہ ہے کہ ان پر اللہ کے سوا کسی کا تصرف نہیں ہے اور نہ اپنی مرضی ہی سے یہ اپنے اندر کسی تبدیلی کے مجاز ہیں۔یہ سب کچھ اللہ کے حکم سے ہوا ہے۔ انبیائے کرام علیہم السلام کے معجزات اور اولیائے کرام رحمہم اللہ کی کرامات سے ان کی شان تو ظاہر ہوتی ہے مگر پردۂ غیب سے حاجت روائی اور مشکل کشائی کے الوہی منصب پر ان کی تقرری ثابت نہیں ہوتی۔ ذرا غور کیجیے اور دیکھیے کہ جب اللہ کی طرف سے کچھ نہیں ملتا تھا تو آپ کے گھر کئی دن تک چولھا نہیں جلتا تھا اور بھوک کی شدت سے آپ پیٹ پر پتھر باندھ کر گزارا کرتے تھے اور جب اللہ کی طرف سے معجزے کا اظہار ہوتا تو ہاتھ کی انگلیوں سے پانی کا چشمہ جاری ہو جاتا تھا۔[2] کبھی یوں ہوتا کہ آپ گھر تشریف لاتے اور کھانے کے بارے میں پوچھتے تو بتایا جاتا گھر میں کچھ نہیں ہے تو آپ فرماتے: ’’پھر میرا روزہ ہے۔‘‘[3] اور جب اللہ کا حکم ہوتا تو چند آدمیوں کا کھانا ہزاروں کو کفایت کر جاتا۔[4] ان تمام واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ کائنات میں تصرف کا اختیار صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔ پھر جو شخص اللہ کے بجائے یا اس کے ساتھ کسی اور میں ایسا تصرف ثابت کرے، اس سے مرادیں مانگے اور اسی غرض سے اس کے نام کی منت مانے یا قربانی کرے اور مصیبت کے وقت اسے پکارے کہ وہ اس کی بلائیں ٹال دے، ایسا شخص بھی شرک کا مرتکب ہے، اس کو شرک فی التصرف کہا جاتا ہے، یعنی اس پوری
Flag Counter