Maktaba Wahhabi

29 - 315
آستانوں پر ہوگی۔ہم براہ راست اللہ کے آستانے تک نہیں پہنچ سکتے، ہمیں پہلے دیوتاؤں کے آستانوں کا وسیلہ پکڑنا چاہیے۔ دراصل یہی وسیلے اور قرب کا عقیدہ ہے جس نے ہر جگہ توحید کی تکمیل میں خلل ڈالا۔ورنہ ایک الٰہ کی وحدت اور بالاتری سے تو کسی مذہب کو بھی انکار نہ تھا۔عرب جاہلیت کے بت پرستوں کا بھی یہی عقیدہ قرآن نے نقل کیا ہے: ﴿ مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللّٰهِ زُلْفَى ﴾’’(وہ کہتے ہیں:) ہم ان کی عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اللہ کے زیادہ قریب کر دیں۔‘‘[1] بہر حال شرک فی الصفات اور شرک فی العبادات کی بنیاد یہی توسل اور تقرب کا عقیدہ بنا جس نے ہندوستان کے عملی مذہب کو مکمل طور پر شرک اور بت پرستی کے عقائد سے معمور کر دیا اور یہ صورت حال اس قدر بگڑی کہ عام آدمی کے لیے ہندو عقیدے کے توحیدی تصور کو سمجھنا ممکن ہی نہ رہا۔توحید ان کے نزدیک وہ راہ ہے جہاں تک صرف خداشناس اور معرفت الٰہی رکھنے والے لوگوں کی رسائی ہوسکتی ہے۔ہم اس کا سراغ پہاڑوں کی غاروں میں پاسکتے ہیں لیکن کوچہ و بازار میں نہیں پاسکتے۔ گیارہویں صدی عیسوی میں جب ابوریحان البیرونی ہندوستان کے علوم و عقائد کے سراغ میں نکلا تو یہ متضاد صورت حال دیکھ کر حیران رہ گیا تھا۔سولہویں صدی میں ایسی ہی حیرانی ابوالفضل کو پیش آئی اور پھر اٹھارویں صدی میں سرولیم جونز (Sir Willaim Jones) کو بھی یہی صورت حال پیش آئی۔بعینہ یہ صورت آج صوفیوں اور گدی نشینوں نے پیدا کر رکھی ہے۔ البیرونی نے یونان کے حکماء کے اقوال کی روشنی میں بتایا ہے کہ اس بارے میں یونان اور ہندوستان دونوں کا حال ایک ہی طرح کا رہا، پھر گیتاکا یہ قول نقل کیا ہے: ’’بہت سے لوگ مجھ (یعنی خدا) تک اس طرح پہنچنا چاہتے ہیں کہ میرے سوا دوسروں کی عبادت کرتے ہیں۔لیکن میں ان کی مرادیں بھی پوری کر دیتا ہوں کیونکہ میں اس سے اور ان کی عبادت سے بے نیاز ہوں۔‘‘
Flag Counter