Maktaba Wahhabi

26 - 315
تعداد تک پہنچ گئی تھی، آخر کار یہ تصور تین دائروں، یعنی زمین، فضا اور آسمان میں سمٹنے لگا، پھر اس نے ایک رب الأرباب کا تصور(Henotheism) پیدا کر لیا۔[1] پھر رب الاربابی تصور اور زیادہ سمٹنے لگتا ہے اور ایک سب سے بڑی اور سب پر چھائی ہوئی ہستی نمایاں ہونے لگتی ہے۔یہ ہستی کبھی ’’ورون‘‘ میں نظر آتی ہے، کبھی ’’اِندر‘‘ میں اور کبھی ’’اگنی‘‘ میں لیکن بالآخر ایک خالق کل، ہستی کا تصورپیدا ہو جاتا ہے جو ’’پرجاپتی‘‘ (پروردگار عالم) اور ’’وشوا کرمن‘‘ (خالق کل) کے نام سے پکاری جانے لگتی ہے اور جو تمام کائنات کی اصل و حقیقت ہے۔ ’’وہ ایک ہے مگر علم والے اسے مختلف ناموں سے پکارتے ہیں: اگنی، یم، مَاتَرِی شوان۔‘‘ ’’وہ ایک نہ تو آسمان ہے، نہ زمین ہے، نہ سورج کی روشنی ہے، نہ ہوا کا طوفان ہے۔وہ کائنات کی روح ہے، تمام قوتوں کا سر چشمۂ ہمیشگی، لازوال۔وہ کیا ہے؟ وہ شاید رٹ ہے ’’جوہر‘‘ کے روپ میں، ادیتی ہے روحانیت کے بھیس میں، وہ بغیر سانس کے سانس لینے والی ہستی!‘‘ ’’ہم اسے دیکھ نہیں سکتے، ہم اسے پوری طرح بتا نہیں سکتے۔‘‘ وہ ’’ایکم است‘‘ ہے، یعنی اکلوتی حقیقت، الحق۔یہی وحدت ہے جو کائنات کی تمام کثرت کے اندر دیکھی جاسکتی ہے۔ یہی مبادیات ہیں جنھوں نے اپنشدوں میں وجودی توحید (Pantheism) کے تصور کی نوعیت پیدا کی، پھر اسی پر فکری غلبے کی بڑی بڑی عمارتیں تیار کر لی گئیں۔اس سے وحدت الوجود کا جو عقیدہ پیدا ہوا اس کا دارومدار کشف و مشاہدہ پر تھا۔نظری عقائد کو اس میں دخل نہیں تھا، اس لیے ان کے نزدیک اس ذات عالی کو صرف منفی صفات سے متصف قرار دیا جاسکتا تھا، مثبت صفات والا نہیں ٹھہرایا جاسکتا تھا، یعنی یہ تو کہا جاسکتا تھا کہ وہ ایسا نہیں ہے لیکن یہ نہیں کہا جاسکتا تھا کہ وہ ایسا ہے کیونکہ مثبت صفات کا جو نقشہ بھی بنایا جائے گا وہ ہماری ہی سوچ کا آئینہ دار ہوگا اور ہمارا ذہن حقیقت کا تصور نہیں کر سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ اپنشد نے پہلے ذات مطلق (برہمان) کو ذاتِ مُشَخَّص (ایشور) کے مرتبے میں اتارا اور ذات
Flag Counter