Maktaba Wahhabi

212 - 315
پانی کی بہتات سے مال مویشی غرق اور گھر منہدم ہو رہے ہیں، آپ اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیں کہ اب وہ بارش روک دے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مبارک ہاتھ اٹھائے اور یہ دعا کی: ((اَللّٰھُمَّ!حَوَالَیْنَا وَلَا عَلَیْنَا)) ’’اے اللہ!(بارش کو) ہمارے گرد و پیش لے جا اور اب ہم پر نہ برسا۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا فرماتے ہوئے آسمان پر جس طرف بھی اشارہ کرتے، بادل چھٹ جاتا حتی کہ لوگ مسجد سے نکل کر دھوپ میں چلنے لگے۔[1] اس طرح کے بہت سے واقعات سے یہ ثابت ہے کہ متعدد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں یہ درخواست کی کہ آپ ان کے لیے دعا فرمائیں، مثلاً: نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ ذکر فرمایا کہ آپ کی امت کے ستر ہزار افراد کسی حساب و عذاب کے بغیر جنت میں داخل ہوں گے اور یہ وہ لوگ ہوں گے جو نہ دم کراتے ہیں، نہ داغ لگواتے ہیں، نہ بدشگونی پکڑتے ہیں بلکہ اپنے رب تعالیٰ ہی پر پورا بھروسا رکھتے ہیں تو سیدنا عکاشہ بن محصن رضی اللہ عنہ کھڑے ہو گئے۔انھوں نے عرض کی: اللہ کے رسول!آپ اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیں کہ وہ مجھے بھی انھی لوگوں میں شامل کر دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((أَنْتَ مِنْھُمْ)) ’’تم انھی لوگوں میں سے ہو۔‘‘[2] تو یہ بھی جائز وسیلے کی ایک صورت ہے کہ انسان اس شخص سے دعا کی درخواست کرے جس کی دعا کی قبولیت کی امید ہو مگر درخواست کرنے والے سائل کے لیے ضروری ہے کہ وہ صرف اپنی ہی ذات کے لیے دعا کا خواستگار نہ ہو بلکہ یہ ارادہ بھی کرے کہ میرا بھائی غائبانہ طور پر جب میرے لیے دعا کرے گا تو اسے کئی طرح کا اجر و ثواب ملے گا ایک میرے حق میں دعا کرنے کا، دوسرا فرشتہ جہاں میرے حق میں آمین کہے گا وہاں میرے اس بھائی کے حق میں بھی وہی دعا کرے گا اور اس طرح میرے حق میں دعا کر کے وہ خود بھی روحانی فوائد حاصل کرے گا کیونکہ جب آپ کا ارادہ یہ ہوگا کہ آپ کے بھائی کو بھی فائدہ پہنچے اور آپ کو بھی تو یہ سوال برائے سوال نہیں رہے گا بلکہ آپ کی طرف سے اپنے دینی بھائی کے ساتھ احسان ہوجائے گا جیسا
Flag Counter