Maktaba Wahhabi

203 - 315
علامت یہ ہے کہ بندہ یہ سمجھتا ہے کہ میرا رب میرے سفارشی سے بے پناہ محبت کرتا ہے، اس لیے وہ اس کی محبت میں آ کر اس کی سفارش ضرور قبول کرے گا، اسے ٹالے گا نہیں حالانکہ محض محبوب کی محبت میں آ کر اپنے کسی پرحکمت فیصلے کو بدل ڈالنا خوبی نہیں عیب ہے اور اللہ تعالیٰ ہر عیب سے پاک ہے تو اس عیب سے بھی پاک ہے۔وہ کسی دعا کو قبول کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ خالصتاً اپنی حکمت کی بنیاد پر کرتا ہے۔باطل شفاعت کی تیسری علامت یہ ہے کہ بندہ غائبانہ طور پر پہلے اپنے معبود سے دعا کرتا ہے تاکہ وہ آگے اللہ کے حضور دعا کر دے اور اللہ تعالیٰ میری مراد پوری کر دے، حالانکہ جس اللہ نے مراد پوری کرنی ہے وہ اپنے علم اور اپنی مدد کے لحاظ سے اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔اور جس ہستی کو وہ اپنا سفارشی سمجھتا ہے وہ اپنی اس ڈیوٹی پر نہیں ہے۔گویا سارا عمل ہی ’’سنہرے خیالات‘‘ پر مبنی ہے۔باطل شفاعت کی چوتھی علامت یہ ہے کہ بندہ سمجھتا ہے کہ اس دنیا میں مجھے جو کچھ ملا ہوا ہے اس سفارشی کی سفارشوں کے نتیجے میں ملا ہوا ہے۔رہی قیامت تو اول تو وہ نہیں آئے گی اگر آ بھی گئی تو ہمارے یہ سفارشی ہمیں اللہ کی پکڑ سے بچا لیں گے گویا حساب و عذاب کا معاملہ دوسروں کے ساتھ ہوگا ہمارے ساتھ نہیں ہوگا۔ اس لیے علمائے عقیدہ کہتے ہیں کہ یہ شفاعت بالکل بے کار اور کسی کے کچھ کام نہیں آئے گی۔اس شفاعت کی حقیقت خام خیالی کے سوا کچھ نہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿فَمَا تَنْفَعُهُمْ شَفَاعَةُ الشَّافِعِينَ ﴾ ’’(اس حال میں) سفارش کرنے والوں کی سفارش انھیں کچھ فائدہ نہ دے گی۔‘‘[1] اللہ تعالیٰ ان مشرکین کے شرک سے سخت ناراض ہے اور یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ کسی کو مشرکین کے لیے شفاعت کی اجازت دے کیونکہ وہ تو اپنے پسندیدہ بندوں ہی کے لیے شفاعت کی اجازت عطا فرمائے گا، لہٰذا مشرکین کا اپنے معبودوں سے یہ اُمید لگائے رکھنا کہ ﴿هَؤُلَاءِ شُفَعَاؤُنَا عِنْدَ اللّٰهِ ﴾’’یہ اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں۔‘‘[2] سراسر باطل اور بالکل احمقانہ خیال ہے۔
Flag Counter