Maktaba Wahhabi

146 - 315
علیحدگی نے بہت سے لوگوں کو سوچنے پر مجبور کیا۔معتزلہ کے کئی نامور علماء نے ابوالحسن اشعری کی موافقت کی اور اس کے ہم مسلک بن گئے جن میں امام باقلانی، ابواسحاق اسفرائنی، شہرستانی اور امام غزالی خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔اگرچہ امام غزالی آخری عمر میں سلف صالحین محدثین کے منہج کو ترجیح دینے لگے تھے۔ ابوالحسن اشعری اگرچہ معتزلہ کی طرح جملہ صفات الٰہیہ کی نفی نہیں کرتے تھے اور نہ کرامیہ کی طرح اللہ تعالیٰ کے لیے مخلوق کی طرح جسم کے قائل تھے لیکن وہ بھی سات صفات (سمع، بصر، علم، قدرت، ارادہ، حیات، کلام) کے علاوہ باقی صفات باری تعالیٰ میں تأویل کرتے تھے۔وہ کتاب و سنت کو بنیادی ماخذ شریعت تسلیم کرتے تھے لیکن طریقہ استدلال سلف کی بجائے فلسفیانہ تھا۔وہ خبر واحد کو عقائد میں حجت تسلیم نہیں کرتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ آج بھی احناف جو نظریاتی اعتبار سے اشاعرہ ہیں، احادیث کو عقل کی سان پر چڑھاتے ہیں۔ یہ گروہ اگرچہ دوسرے فرقوں کی نسبت سلف کے قریب تھا لیکن ایمانیات کے بہت سے مسائل میں صحیح راستے سے ہٹا ہوا تھا۔عصر حاضر کی قبر پرستی اور غلو کا تعلق اسی گروہ سے ہے اور تصوف کے سلسلے بھی اسی مذہب میں رائج ہیں اور اس کی وجہ دین کے بنیادی اصولوں میں تساہل ہے۔ صلاح الدین ایوبی نے مذہب اشاعرہ کی خوب ترویج کی اور اس کے بعد بلاد مغرب میں ابوعبداللہ محمد بن تومرت کی اولاد حاکم بنی تو انھوں نے اپنا لقب ’’موحدین‘‘ رکھا اور اپنے جدامجد تومرت کو مہدی تک کا درجہ دیا اور اشاعرہ کے عقیدے کے مخالف عقیدہ رکھنے والوں کو سرعام ذبح کیا گیا اور خلق خدا کا اس قدر خون بہایا گیا کہ الامان و الحفیظ!!! ان سب حالات میں محدثین کا معزز گروہ لوگوں کو اصل دین توحید کی طرف بلاتا رہا ہے جن میں سرفہرست امام احمد بن حنبل اور کتب ستہ کے مؤلفین امام بخاری، امام مسلم رحمہم اللہ وغیرہ ہیں۔ ساتویں صدی ہجری میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے سلف صالحین کے منہج کو اجاگر کر کے رافضیوں کے دجل و فریب، صوفیاء کی گمراہیوں اور اشاعرہ اور معتزلہ کی کجیوں سے امت مسلمہ کو خبردارکیا۔اس موضوع پر بے شمار کتابیں تصنیف کیں جو آج تک امت کے لیے مشعل راہ ہیں۔[1]
Flag Counter