Maktaba Wahhabi

120 - 315
دوسرا گروہ مُشَبِّہہ کا ہے جو پہلے گروہ کے برعکس اللہ تعالیٰ کو اسماء اور صفات میں مخلوقات کے مشابہ سمجھتا ہے، یعنی جس طرح مخلوق سنتی ہے، اللہ بھی اسی طرح سنتا ہے۔اور جس طرح مخلوق کے ہاتھ ہیں، اللہ کے ہاتھ بھی اسی طرح ہیں۔ان کے خیال کے مطابق (صفاتِ الٰہیہ کے سلسلے میں وارد ہونے والی) نصوص کا تقاضا یہی ہے کہ صفات الٰہیہ کو مخلوقات کے مشابہ سمجھا جائے کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اس اسلوب سے مخاطب کرتا ہے جس کا وہ فہم و ادراک رکھتے ہوں، یعنی اللہ نے جب قرآن میں اپنے لیے ’’سمیع‘‘ ہونے کا اثبات کیا تو اس لیے کہ اس سمع کا بندوں کو علم ہے اور وہ اس کے بارے میں آگہی رکھتے ہیں۔لیکن ان کا یہ خیال بھی کئی وجوہ سے باطل ہے: 1 اللہ تعالیٰ کا اپنی مخلوق سے مشابہت رکھنا ایک امر باطل ہے۔اسے عقل اور شرع دونوں باطل قرار دیتے ہیں عقل اس طرح کہ جب مخلوق کی صفات آپس میں ایک دوسرے کے مشابہ نہیں تو خالق اور مخلوق کی صفات کیسے مشابہ ہوسکتی ہیں۔شریعت اس طرح مشابہت کو باطل قرار دیتی ہے: ﴿لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ﴾ ’’اس جیسی کوئی شے نہیں۔‘‘ اور یہ بھی ناممکن ہے کہ قرآن و سنت کی نصوص کا مقصود ایک باطل امر ہو۔ 2 اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں سے ایسے کلمات سے خطاب فرمایا ہے جن کے اصل معانی وہ سمجھ سکتے ہیں، لہٰذا جن الفاظ کا تعلق اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات سے ہے ان کا ظاہری معنی ہمارے لیے معلوم ہوتا ہے مگر ان کی کیفیت صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ اپنے لیے سمیع ہونے کا اثبات فرماتا ہے تو اس میں ہم سمع، یعنی سُننے اور آوازوں کا ادراک کرنے کے معنی جانتے ہیں لیکن جب اس لفظ کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہوجاتی ہے تو اس کے حقیقی معنی ہم نہیں جانتے کیونکہ سمع کی کیفیت کا اختلاف تو مخلوقات میں بھی موجود ہے تو پھر خالق اور مخلوق کے درمیان یہ فرق کس قدر عیاں اور عظیم تر ہو گا؟ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے بارے میں بتایا ہے کہ وہ عرش پر مستوی ہے تو اصل معنی کے اعتبار سے ہم استوی کا مطلب سمجھتے ہیں لیکن جب اللہ تعالیٰ کی طرف اس لفظ کی نسبت ہوجاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہے تو ہمیں اس کا ظاہری معنی معلوم ہوتا ہے مگر اس کی اصل کیفیت اور صحیح تعبیر ہم نہیں جانتے
Flag Counter