Maktaba Wahhabi

94 - 702
متعلق اختلاف ہے۔ ایسے ہی اگرکوئی سود یا جواء کا معاملہ کرے؛ اوروہ انہیں حلال خیال کرتا ہو؛پھر اسے ان کی حرمت کا علم مال قبضہ میں لینے کے بعد ہوجائے؛تو اب اختلاف ہے کیا یہ عقد فسخ ہوگا یا نہیں ؟ جیسے اگر اس نے یہ معاملہ اسلام سے پہلے کیا ہوتا تو فسخ نہ ہوتا۔ ایسے ہی اگر کوئی انسان ایسا نکاح کرے جس کے متعلق وہ اپنی عادت کے مطابق صحیح ہونے کا عقیدہ رکھتا ہو؛ پھر اس تک شرائع اسلام پہنچ جائیں ؛ اوراسے پتہ چلے کہ اس نے نکاح میں بعض ِشروط پوری نہیں کیں ۔ جیسے اگر دوران عدت شادی کرلی ہو؛ اور اب عدت پوری ہوچکی ہو؛ تو کیا یہ نکاح فاسد ہوگا؛ یا اسے برقرار رہنے دیا جائے گا؟ جیسا کہ اگر اس نے اسلام سے پہلے نکاح کر لیا ہو ؛ اور پھر اسلام قبول کیا ہو؟ اصل مسئلہ یہ ہے کہ: کیا انسان پر وہ تمام شرائع لازم آتے ہیں جن کے بارے میں اسے علم نہ بھی ہو؟ یا پھرکسی کو علم ہونے کے بعد ہی اس پر کوئی چیز لازم آتی ہے۔ یا پھر شرائع ناسخ؛ او رشرائع مبتدیہ میں فرق کیا جائے گا؟اس مسئلہ میں تین اقوال ہیں اور امام احمد رحمہ اللہ کے مذہب میں بھی اس کی تین توجیہات ہیں ۔ قاضی ابو یعلی رحمہ اللہ نے مطلق طور پر اپنی کتاب میں ذکر کی ہیں ؛ اور تیسری وجہ ان کے مابین فرق کے طور پر اصول فقہ میں ذکر کی ہے۔ یہ کہ مکلف کے حق میں نسخ اس وقت تک ثابت نہیں ہوتا جب تک اسے ناسخ کا علم نہ ہوجائے۔ اورابو الخطاب نے اس کے ثبوت کی توجیہات ذکر کی ہیں ۔ اسی باب سے یہ مسئلہ بھی تعلق رکھتا ہے کہ جب کوئی انسان لا علمی کی بنا پر واجب طہارت ترک کردے۔ یا پھر ایسی جگہ پر نماز پڑھ لے؛ جہاں پر نماز پڑھنا منع ہو؛ اوروہ اسے ایسی جگہ نماز کی ممانعت کا علم اس سے پہلے نہ ہو ؛ تو کیا وہ اس نماز کو دوہرائے گا یا نہیں ؟ اس میں امام احمد رحمہ اللہ سے دو منصوص روایتیں ہیں ۔ اس پورے باب میں حق اور درست بات یہ ہے کہ:اس کے حق میں علم پر متمکن ہوئے بغیر کوئی حکم ثابت نہیں ہوتا۔ او روہ ان چیزوں کی قضاء نہیں کرے گا جن کے واجب ہونے کا اسے علم نہ ہو۔ صحیح حدیث میں ثابت ہے کہ کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رمضان مین طلوع فجر کے بعداس وقت تک کھایا پیا جب تک کہ کالی ڈور سفید ڈور سے علیحدہ ہوگئی۔ مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں قضاء کا حکم نہیں دیا۔[1] انہی میں اس انسان کا شمار بھی ہوتا ہے جو ایک عرصہ تک جنابت میں بے نماز ہے؛ اور اسے تیمم کرکے نماز پڑھنے کے جواز کا علم نہ ہو۔ جیسے حضرت عمر ابن خطاب؛ حضرت ابو ذر اور حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہم ؛ جب انہیں جنابت لاحق ہوگئی؛ مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے کسی ایک کو قضاء کا حکم نہیں دیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مکہ مکرمہ اور دیگر دیہاتوں میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد بیت المقدس کی طرف منہ
Flag Counter