Maktaba Wahhabi

93 - 702
مطابق اٹھایا جائے گا۔ جیسے صحیح بخاری میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ کعبہ پر ایک لشکر حملہ کرے گا جب وہ بیداء کھلے میدان میں پہنچیں گے، تو اول سے اخیر تک سب اس میدان میں دھنسا دئیے جائیں گے....آپ سے پوچھا گیا: یارسول اللہ! ان میں وہ لوگ بھی ہوں گے جو زبردستی لائے گئے ہوں گے؟ تو آپ نے فرمایا : ’’ انہیں ان کی نیتوں کے مطابق اٹھایا جائے گا۔‘‘[1] یہ حکم ظاہر کے اعتباسے ہے؛ جب کوئی قتل ہوجائے یا اس پر وہ حکم لگایا جائے جو حکم کفار پر لگایا جاتا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ اسے اس کی نیت پر اٹھائیں گے۔ جیسے ہم میں موجود منافقین کا حال ہے؛ ان پران کے ظاہر کے اعتبار سے اسلام کا حکم لگایا جاتا ہے؛ مگر انہیں ان کی نیتوں پر اٹھایا جائے گا؛اور قیامت کے دن انہیں اس حساب سے بدلہ ملے گا جو ان کے دل میں ہوگا؛ نہ کہ محض ظاہر کے اعتبار سے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عباس سے مروی ہے: انہوں نے کہا: یارسول اللہ ! میں مجبور تھا[مجھے زبردستی لایا گیا تھا ] تو آپ نے فرمایا: ’’ ظاہر میں تم ہمارے خلاف تھے۔ جب کہ تمہارے باطن کا معاملہ اللہ پر ہے ۔‘‘[2] خلاصہ کلام! مسلمانوں کے مابین اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ جو کوئی دار کفر میں ہو؛ اوروہ ایمان لے آئے؛ مگر ہجرت کرنے سے عاجز آجائے؛ تو اس پر وہ امور شریعت واجب نہیں ہوتے جن پر عمل کرنے سے وہ عاجز آگیا ہو۔بلکہ ان کا وجوب امکان کے اعتبارسے ہوتا ہے۔یہی حال اس کا بھی ہے جسے کسی چیز کے حکم کا پتہ ہی نہ ہو۔ پس اگر کسی کو معلوم نہ ہو کہ نماز اس پر واجب ہے؛ اور ایک مدت تک وہ ایسے ہی رہے؛ تو علماء کے ظاہر قول کے مطابق اس پر قضاء واجب نہیں ہوتی۔یہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور اہل ظاہر کا مذہب ہے؛ اوراحمد رحمہ اللہ کے ہاں بھی ایک توجیہ یہی ہے۔ اوریہی حکم دیگر تمام واجبات کا بھی ہے؛ جیسے رمضان کے روزے؛زکواۃ اداکرنا؛اور دیگر امور۔ اور اگر اسے شراب کی حرمت کا علم نہ ہو؛ اوروہ پی لے ؛ تو وہ تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ اس صورت میں اس پر حد نہیں لگے گی۔ ہاں نماز کی قضاء کے
Flag Counter