Maktaba Wahhabi

689 - 702
ان لوگوں نے چھوڑ دیئے تھے۔اس کے بعد محمد بن نصر المروزی نے کتاب ’’ رفع الیدین ‘‘ میں اس سے کئی گنا زیادہ متروکہ اقوال جمع کردیئے ۔ اس کی وجہ یہ ہوئی کو انہوں نے امام محمد بن نصر کے خلاف نماز میں رفع یدین کے مسئلہ میں عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے قول سے دلیل اختیار کی تھی۔ یہ کوفہ کے ان علماء کرام کے ساتھ کلام وگفتگوہے جو شرعی دلائل سے استدلال کیا کرتے تھے جیسے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے اصحاب میں سے محمد بن الحسن رحمہ اللہ اور ان کے امثال ؛ اس لیے کہ امام شافعی رحمہ اللہ کے اکثر مناظرے محمد بن الحسن اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ ہوا کرتے تھے۔ آپ نے نہ ہی ابو یوسف رحمہ اللہ سے ملاقات کی اور نہ ہی کبھی ان سے مناظرہ کیا ۔ اور نہ ہی ان سے کوئی حدیث سنی۔بلکہ امام ابو یوسف رحمہ اللہ کا انتقال امام شافعی رحمہ اللہ کے عراق میں داخل ہونے سے پہلے ہی ہو چکا تھا۔اس لیے کہ امام ابو یوسف کا انتقال ۱۸۳ہجری میں ہوگیا تھا؛ جب کہ امام شافعی ۱۸۵ہجری میں عراق تشریف لائے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی کتابوں میں امام ابو یوسف کے اقوال امام محمد رحمہما اللہ کی سند کے ساتھ پائے جاتے ہیں ۔ جب کہ روافض کی تہی دامنی کا یہ عالم ہے کہ امام علی رضی اللہ عنہ کے معصوم ہونے اور دوسروں سے عصمت کی نفی پر اپنے حق میں اپنے ہی اقوال سے استدلال کرتے ہیں ۔یعنی جہالت کو جہالت سے ثابت کرتے ہیں ۔ میں نے ان کے مشائخ کی کتابوں میں دیکھا ہے کہ جب ان کے مابین کسی مسئلہ میں دو اقوال پر اختلاف ہوجاتا ہے ؛ ایک قول کا قائل معلوم ہو اوردوسرے کے قائل کو کوئی پتہ نہ ہو ؛ تو ان کے ہاں وہ قول حق اور درست ہوگا جس کے کہنے والے کا کوئی پتہ نہ ہو؛ [اس کی وجہ بتاتے ہوئے کہتے ہیں ] : جب کسی قول کاقائل معلوم نہ ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ امام معصوم کا قول ہے۔کیا یہ بات انتہائی بڑی جہالت کے سوا بھی کچھ ہوسکتی ہے ؟ انہیں یہ کیسے پتہ چل گیا کہ وہ دوسرا قول جس کا کوئی کہنے والا معلوم نہیں ؛ وہ امام معصوم کا قول ہے ؟ بالفرض اگر امام معصوم کے وجود کو مان بھی لیا جائے تو پھر بھی یہ معلوم نہیں ہوسکتا کہ اس نے یہ کہا ہے ۔ جیسا کہ اس کوئی اور دوسرا کہنے والا بھی موجود نہیں ہے۔اور اگر ایسے ہی ہے تو پھر وہ قول امام کا کیوں نہیں ہوسکتا جس کا کہنے والا معلوم ہے ؛ اور کسی دوسرے کے بارے میں علم ہے کہ فلاں آدمی نے یہ بات کہی ہے۔جیسا کہ دیگر بھی بہت سارے اقوال ایسے ہیں جن میں دوسرے لوگ بھی ان کی موافقت کرتے ہیں ۔جب کہ دوسرے قول کے بارے میں کچھ معلوم نہیں کس نے کہا؛ او رکہنے والے کو پتہ نہیں کہ وہ کیا کہہ رہا ہے ؛ ممکن ہے کہ یہ شیاطین جن و انس میں سے کسی ایک نے کہا ہو ؟ پس رافضی کسی قول کے قائل اور اس کی صحت کا علم نہ ہونے کو اس قول کی صحت شمار کرتے ہیں ۔جیسا کہ ان کا یہ قول ہے کہ : کسی دوسرے کے معصوم نہ ہونے کا علم ہونا ان کے امام کے معصوم ہونے کی دلیل ہے۔اورپھر یہ کہ جس بات کے کہنے والے کا کوئی پتہ نہ ہو تو اس کے بارے میں کہہ دیتے ہیں کہ یہ امام معصوم کا فرمان ہے۔جو لوگ بھی اللہ تعالیٰ کی معبوث کردہ انبیاء کرام علیہم السلام کی سنتوں کے نور سے اعراض کرے گا ان کا یہی حال ہوگا۔ وہ ایسی بدعات کی
Flag Counter