Maktaba Wahhabi

673 - 702
اس کی ایک مثال یہ ہے کہ : بلاد حجاز اور شام کے ساحلی علاقوں میں ایسے رافضی پائے جاتے ہیں جو اپنے آپ کو امام معصوم کی طرف منسوب کرتے ہیں ۔ ہم نے ان لوگوں کا حال دیکھاہے جو شام کے ساحلی علاقوں پر رہا کرتے تھے ؛ مثلاً جبل کسروان کے رہنے والے۔اورہم تک ان لوگوں کی خبریں پہنچتی رہتی ہیں ۔ ہم نے ان سے بڑھ کر دینی اور دنیاوی لحاظ سے بد حال فرقہ کوئی اور نہیں دیکھا۔ اور یہ بھی دیکھا ہے کہ جن حکمرانوں کے زیر سایہ وہ زندگی گزار رہے ہوتے ہیں وہ علی الاطلاق ان سے کئی درجہ بہتر ہوتے ہیں ۔ جولوگ کافر حکمرانوں کے زیر سایہ رہتے ہوں ‘ان کی حالت ملحدین ‘ نصیریہ ‘ اوراسماعیلیہ و غیرہ سے بہترہوتی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ دوسرے لوگوں کے لیے الوہیت اور نبوت کا عقیدہ رکھتے ہیں ۔ ہر وہ گروہ جو اہل سنت بادشاہوں کے زیر سایہ رہا ہے؛ بھلے وہ بادشاہ دین و دنیا کے اعتبار سے ظالم ترین بادشاہ ہو‘ مگر اس کی رعیت کی حالت دوسرے لوگوں کی نسبت سے بہتر ہوتی ہے۔ اس لیے کہ جو بات اہل سنت کے مابین مشترک ہے ‘ اور جس کی وجہ سے اہل سنت اہل رفض سے جداگانہ حیثیت رکھتے ہیں ‘ اور جن امور پر دین ودنیا کی مصلحتیں منحصر ہیں ‘اس کی کئی وجوہات ہیں ۔ وہ معاملہ جو رافضیوں کے مابین مشترک ہے ‘ اور اہل سنت اس میں روافض سے ممتاز ہیں ‘اس پر نہ ہی کسی شہر کی کوئی مصلحت منحصر اورنہ ہی گاؤں کی؛ اور کسی گاؤں یا شہر کے رہنے والوں کو آپ ایسا نہیں پائیں گے جن پر رافضیت غالب ہو؛ مگر وہ اپنی بقاء و قیام کے لیے دوسرے لوگوں کا سہارا لیکر چلتے ہیں خواہ یہ دوسرے لوگ اہل سنت مسلمان ہوں یا پھر کوئی کافر۔ صرف اکیلے رافضی اپنی بقاء کو ہر گز قائم نہیں رکھ سکتے۔ جیسا کہ یہودی اکیلے اپنے معاملات نہیں نبھاسکتے ۔ بخلاف اہل سنت و الجماعت کے ۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اہل سنت والجماعت کے بہت سارے شہر و ملک آباد ہیں جن کانظام چلانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے نہ ہی کسی کافر کا محتاج کیا ہے اورنہ ہی کسی رافضی کا۔ خلفائے ثلاثہ نے ملکوں کے ملک اور شہروں کے شہر فتح کیے ؛ مشرق و مغرب میں اسلام کا جھنڈا لہرایا ؛ ان کے ساتھ کوئی رافضی نہیں تھا۔ ان کے بعد بنو امیہ آئے ۔ باوجود اس کے کہ ان میں سے بہت سارے لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منحرف ہوچکے تھے ‘ اور ان میں سے بعض حضرت علی رضی اللہ عنہ پر طعنہ زنی کرتے تھے ؛ مگر وہ مشرق ومغرب کے تمام اسلامی شہروں پر غالب آگئے تھے۔ بعد میں آنے والے زمانہ کی نسبت سے ان کے دور میں اسلام بہت ہی معزز و غالب تھا۔بنو امیہ کا دور ختم ہونے کے بعد ایسا اتفاق و اتحاد پیدا نہ ہوسکا۔ جب بنو عباس کی حکومت قائم ہوئی ‘اس وقت عبد الرحمن بن ہشام الداخل بلاد مغرب کی طرف چلا گیا ۔جسے قریش کا شاہین کہا جاتا ہے ۔ اس نے مغرب میں اپنا قبضہ جمالیا اور وہاں پر اسلام کا جھنڈا گاڑ دیا ۔ اپنے گرد و نواح کے کفار کا قلعہ قمع کیا ۔ دین و دنیامیں ان کی سیاست لوگوں میں بہت معروف رہی ہے۔
Flag Counter