Maktaba Wahhabi

66 - 702
٭ جبکہ ان کے علاوہ دوسرے حضرات کہتے ہیں : ائمہ فتوی اور سلف صالحین جیسے ابو حنیفہ : شافعی؛ اور ثوری اور داؤد بن علی اور ان کے علاوہ دیگر حضرات مجتہدخطا کار کو گنہگار نہیں کہتے ؛ نہ ہی اصولی مسائل میں اور نہ ہی فروعی مسائل میں ۔ جیسا کہ ان سے یہ قول ابن حزم او ردیگر علماء نے نقل کیا ہے۔ اسی لیے امام ابو حنیفہ اور امام شافعی اور دیگر علماء أھل ھواء کی گواہی قبول کرتے ہیں سوائے خطابیہ کے۔ یہ حضرات ان کے پیچھے نماز کو بھی جائزاورصحیح کہتے ہیں ۔جب کہ کافر کی گواہی مسلمانوں کے خلاف قبول نہیں کی جاتی اور نہ ہی اس کے پیچھے نماز پڑھی جاسکتی ہے۔ ٭ ان کا کہنا ہے کہ:صحابہ و تابعین اور ائمہ دین سے معروف قول یہی ہے۔ وہ خطاکار مجتہدین میں کسی کو بھی نہ ہی کافر کہتے ہیں اور نہ ہی فاسق ؛ اور نہ ہی گنہگار۔نہ ہی علمی مسائل میں اور نہ ہی عملی مسائل میں ۔ ٭ اور یہ بھی کہتے ہیں کہ: ’’ اصولی اور فروعی مسائل میں فرق کرنا اہل بدعت اہل کلام کے اقوال میں سے ہے؛ جن کا تعلق معتزلہ ؛ جہمیہ اور ان کی ڈگر پر رواں فرقوں سے ہے۔یہ عقیدہ کچھ دوسرے لوگوں میں منتقل ہوا تو انہوں نے اصول فقہ میں اس پر گفتگو کی ہے۔ انہیں اس قول کی حقیقت کا کوئی علم نہیں ہوسکا اور نہ ہی انہوں نے اس پر کوئی غور و فکر کیا۔ ٭ وہ کہتے ہیں : فروعی اور اصولی مسائل میں فرق کرنا اسلام میں ایک نئی ایجاد کردہ بدعت ہے۔ اس پر کتاب و سنت سے کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔ بلکہ سلف صالحین میں سے بھی کسی ایک نے بھی کوئی ایسی بات نہیں کہی ۔ اور عقلاً بھی ایسا کہنا باطل ہے۔ اس لیے کہ اصولی اور فروعی مسائل میں تفریق کرنے والوں نے صحیح طرح سے ان کے مابین تفریق نہیں کی؛ جس کی وجہ سے دونوں اقسام باہم جدا ہو جاتیں ۔ بلکہ انہوں نے تین یا چار جتنے بھی اصول بیان کیے ہیں ؛ وہ سارے کے سارے باطل ہیں ۔ ٭ ان میں سے کوئی کہتا ہے: اصولی مسائل وہ علمی اعتقادی مسائل ہیں جن میں صرف عقیدہ اور علم کی طلب کی جاتی ہے۔ اور فروعی مسائل وہ ہیں جن میں عمل طلب کیا جاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں : یہ فرق باطل ہے۔ پس بیشک عملی مسائل میں بہت ساری چیزیں ایسی ہیں جن کے منکر کو کافر کہا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر نماز پنجگانہ کے وجوب کا منکر؛ ماہ رمضان کے روزوں اور زکواۃ؛ اور زنا ؛ سود اور ظلم اور فحاشی کے حرام ہونے کا انکار کرنا۔ اور علمی مسائل میں سے بعض ایسے ہیں جن میں اختلاف کرنے والے گنہگار نہیں ٹھہرتے۔ جیسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کااختلاف کہ کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ہے یا نہیں ؟ اور بعض نصوص کے متعلق ان کے مابین اختلاف کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کچھ ارشاد فرمایا ہے یا نہیں ؟ اور پھر اس کے معانی سے کیا مراد ہے؟ اور جیسا کہ بعض کلمات میں بھی ان کا اختلاف ہے ؛ کیا یہ کلمات قرآن میں سے ہیں ؛ یا نہیں اور جیسا کہ قرآن و سنت کے بعض کلمات کے معانی میں ان کا اختلاف ہے ۔کہ کیا اللہ اور اس کے رسول کی مراد ایسے ایسے ہی تھی؟ اور جیسا کہ علم کلام کے دقیق مسائل میں لوگوں کا اختلاف ہے ؛ جیسے جوہر اور فرد کا مسئلہ ؛ اور تماثل اجسام؛ بقاء الاعراض ؛اور اس طرح کے دیگر مسائل ۔ ان میں نہ
Flag Counter