Maktaba Wahhabi

65 - 702
ہے۔ وہ کہتے ہیں : اس سلسلہ میں کوئی قطعی بات نہیں ہے۔ اوران لوگوں کے نزدیک ظن پر کوئی دلیل نہیں ہوتی۔ یہ تو بالکل انسانی نفس کے کسی ایک چیز کو چھوڑ کر دوسری چیز کی طرف میلان کی طرح ہے۔ پس یہ لوگ ظنی اعتقادات کو ارادہ کی جنس سے شمار کرتے ہیں ۔ ان کا دعوی ہے کہ نفس امر میں حکم ِ اجتہاد مطلوب نہیں ۔اور نہ ہی نفس الامر میں کوئی امارت کسی امارت سے زیادہ ارجح ہوتی ہے۔ یہ قول ابو ہذیل العلاف اور اس کے اتباع کاروں جیسے جبائی اور اس کے بیٹے کا قول ہے۔ اوراشعری کا بھی ایک مشہور قول یہی ہے۔ اور قاضی ابو بکر الباقلانی ؛ ابو حامد الغزالی؛ اور ابو بکر ابن العربی اور ان کے اتباع کاروں نے یہی قول اختیار کیا ہے؛یہ مسئلہ ہم کئی جگہ تفصیل سے بیان کرچکے۔ ان کے مخالف جیسے ابو اسحق اسفرائینی ؛اور دوسرے اشاعرہ ؛ اور ان کے علاوہ دیگر لوگ ؛ وہ کہتے ہیں : اس قول کی ابتداء دہوکہ بازی پر ہے اور انتہاء زندیقیت پر۔ یہ ان لوگوں کا قول ہے جو کہتے ہیں : بیشک شرعی اجتہادی عملی مسائل میں ہر مجتہد ظاہر اور باطن میں حق پر ہوتا ہے۔ ان کے نزدیک اس بات کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ مجتہد غلطی پرہو؛ مگر یہ ہوسکتا ہے کہ اس پر بعض امور مخفی رہ گئے ہوں ۔ پس جو حکم کسی پر مخفی رہ جائے؛ وہ اس مجتہد اور اس کے امثال و ہمنواؤں کے حق میں اللہ تعالیٰ کا حق نہیں ہوسکتا۔ اور جو کوئی خطاء پر ہو؛ وہ قطعی مسائل میں بھی خطا پر ہے اور ان کے نزدیک وہ گنہگار ہے۔ دوسرا قول:....استدلال کرنے والا مجتہد بعض اوقات حق کی معرفت حاصل کر سکتا ہے اور بعض اوقات ایسا نہیں ہوسکتا۔ بصورت عجز اﷲتعالیٰ بعض اوقات اس کو سزا دیتے ہیں اوربعض اوقات نہیں ۔کیونکہ اللہ تعالیٰ جس کو چاہیں عذاب دیں او رجسے چاہیں بغیر کسی سبب کے معاف کردیں ۔یہ تمام امور اس کی مشئیت محضہ کے تحت ہوتے ہیں ۔یہ جہمیہ واشاعرہ کا مذہب ہے اور مذاہب اربعہ کے اکثر اتباع بھی یہی نظریہ رکھتے ہیں ۔ ٭ پھر یہ لوگ کہتے ہیں : یہ بات یقیناً دلائل سے معلوم ہوچکی ہے کہ ہر کافر جہنم کی آگ میں ہوگا۔ اور ہم جانتے ہیں کہ بلاشک و شبہ اللہ تعالیٰ ہر کافر کو عذاب دیں گے۔ بھلے اس نے اجتہاد کیا ہو اوروہ دین اسلام کی صحت تک رسائی سے عاجز آگیا ہو۔یا پھر اس نے اجتہاد نہ کیا ہو۔ جبکہ اختلاف کرنے والے مسلمان؛ اگرچہ ان کا اختلاف فروعی مسائل میں ہوتاہے؛تو پھر بھی ان کی اکثریت یہی کہتی ہے کہ: ان مسائل میں کوئی عذاب کی بات نہیں ۔اور ان کے بعض لوگ کہتے ہیں : اس کی وجہ یہ ہے کہ شارع نے ان چیزوں میں خطأ کومعاف رکھا ہے۔ اور سلف صالحین کے اجماع سے بھی یہی بات معلوم ہوتی ہے کہ اجتہاد میں خطا کاارتکاب ہوجانے پر کوئی گناہ نہیں ہوتا۔ اور بعض کہتے ہیں : ظنی مسائل میں خطا ممکن ہی نہیں ہوتی۔جیسا کہ جہمیہ اور اشاعرہ سے اس کا ذکر پہلے گزرچکا ہے۔ ٭ جب کہ قطعیات میں ان کی اکثریت خطا کار کو گنہگار کہتی ہے اوران کا کہنا ہے کہ: سماعت اس پر دلالت کرتی ہے۔ اور ان میں سے بعض اس پر گنہگار نہیں کہتے۔ یہ قول عبیداللہ بن الحسن العنبری سے حکایت نقل کیا گیاہے۔اس کا معنی یہ ہے کہ: آپ اس امت کے خطا کار مجتہدین کو گنہگار نہیں ٹھہراتے۔ نہ ہی اصول میں اور نہ ہی فروع میں ۔ جب کہ اہل کلام اور اہل رائے دونوں گروہوں کے جمہور نے عبیداللہ کا یہ قول رد کیا ہے۔
Flag Counter