Maktaba Wahhabi

63 - 702
امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : کلبی متروک الحدیث ہے۔ محدث ابن عدی رحمہ اللہ کہتے ہیں :’’ ہشام کلبی افسانہ گو تھا۔ مسند احمد میں اس سے کوئی حدیث مروی نہیں ۔ا س کا باپ بھی کذاب ہے۔‘‘ امام زائدہ و لیث و سلیمان رحمہما اللہ فرماتے ہیں :’’کلبی کذاب ہے۔‘‘ محدث یحییٰ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’ کلبی کذاب، ساقط الاحتجاج اور بے کارآدمی ہے۔‘‘ محدث ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’کلبی کا کاذب ہونا عیاں راچہ بیاں ‘‘ کے مصداق ہے۔ معائب صحابہ کی دوسری قسم: ....صحابہ پر دوسری قسم کے وہ اعتراضات ہیں جو بجائے خود صحیح ہیں ، مگر صحابہ کے عذرات کی بنا پر ان کو گناہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ بلکہ وہ اجتہادی غلطی کی قسم کی چیز ہیں جس کے درست ہونے کی صورت میں دو اجر ملتے ہیں اور غلط ہونے کی صورت میں ایک اجر۔ خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کے بارے میں جو اعتراضات کیے جاتے ہیں وہ اسی قسم سے تعلق رکھتے ہیں ۔ تاہم اگر بفرض محال ان میں سے کسی چیز کے بارے میں ثابت بھی ہو جائے کہ وہ گناہ ہے تو اس سے ان کے فضائل ومناقب اور جنتی ہونے پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ اس لیے کہ گناہ کی سزا متعدد اسباب کی بنا پر آخرت میں ٹل بھی جاتی ہے۔ وہ اسباب یہ ہیں : ۱۔ توبہ گناہوں کو ختم دیتی ہے۔ شیعہ کے بارہ ائمہ کے بارے میں ثابت ہے کہ انھوں نے اپنے گناہوں سے توبہ کی تھی۔ ۲۔ اعمال صالحہ گناہوں کو ملیا میٹ کردیتے ہیں ۔نیکیاں برائیوں کے اثرات کو ختم کردیتی ہیں ؛ اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿اِنْ تَجْتَنِبُوْا کَبَائِرَ مَا تُنْہَوْنَ عَنْہُ نُکَفِّرْ عَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ﴾ (النساء:۳۱) ’’اگر تم کبیرہ گناہوں سے بچو گے تو ہم تمہارے چھوٹے گناہ معاف کردیں گے۔‘‘ ۳۔ مصائب و آلام بھی گناہوں کا کفارہ بن جاتے ہیں اور ان سے گناہوں کا ازالہ ہو جاتا ہے۔ ۴۔ مومنوں کی دعا سے بھی گناہوں کا ازالہ ہو جاتا ہے۔ ۵۔ انبیاء کی شفاعت سے بھی گناہ دور ہو جاتے ہیں ۔ بہرکیف جن اسباب و وجوہ کی بنا پر افراد امت میں سے کسی کے گناہ کو معاف کیا جاسکتاہے اور اس کی سزا کا ازالہ ممکن ہے صحابہ ان سب سے زیادہ اس امر کے مستحق ہیں کہ ان سے ذم و عتاب کو دور کیا جائے اور ان کے گناہوں کو معاف کیا جائے۔ اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم مدح و تعریف کے سب سے زیادہ حق دار ہیں ۔ ہم اس ضمن میں صحابہ اور دیگر افراد امت کے لیے ایک جامع قاعدہ ذکر کرتے ہیں ۔یہ ضروری ہے کہ انسان کو اس قاعدہ کلیہ کا علم ہو‘ تاکہ جزئیات کو اس کی طرف لوٹایا جائے ‘ تاکہ انسان علم کی روشنی میں عدل کے ساتھ بات کر سکے۔اور اسے جزئیات کے وقوع پذیر ہونے کی کیفیت کا بھی علم ہو ‘ ورنہ وہ ان جزئیات کے بارے میں ایسے ہی کذب و جہالت کا
Flag Counter