Maktaba Wahhabi

608 - 702
٭ ایسے ہی کہنے والے کا یہ قول بھی ہے کہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق آپ کی تجہیز و تکفین اور قبر کے امور میں مشغول ہوگئے تھے۔‘‘ یہ ایک کھلا ہوا جھوٹ ہے۔اور ان کے دعوی کے متناقض بھی ہے۔ اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین رات کو عمل میں آئی۔یہ کام دن کو نہیں ہوسکا۔اور یہ بھی کہا گیاہے کہ : آپ کی تدفین آنے والی رات میں ہوئی ۔ اور آپ نے کسی کو بھی قبر کے ساتھ لگے رہنے کا حکم نہیں دیا؛ اورنہ ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایسا کیا۔ بلکہ آپ کی قبر اطہر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں تھی۔ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ ام المؤمنین کے لیے نامحرم تھے۔ ٭ پھر آپ کو اپنی قبر پر لگے رہنے کا حکم بھی کیسے دیا جاسکتا ہے جب کہ ان لوگوں کے خیال مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو اپنے بعد امام متعین کیا تھا۔ ٭ دوسری بات یہ ہے کہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تجہیز و تکفین میں صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ اکیلے ہی مصروف نہیں تھے۔ بلکہ آپ کے ساتھ حضرت عباس اوران کے بیٹے بھی تھے؛ رضی اللہ عنہم ۔آپ کا غلام شقران رضی اللہ عنہ بھی تھا؛ اورر بعض انصار بھی اسی کام میں لگے ہوئے تھے۔ جب کہ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہماگھرکے دروازہ پربیٹھے ہوئے تھے۔غسل اور تجہیز کے وقت یہ تمام حضرات حاضر اورموجود تھے؛ اس وقت سقیفہ بنی ساعدہ میں نہیں تھے۔ ٭ سنت یہ ہے کہ : میت کی تجہیز و تکفین اس کے گھر والے کریں ۔پس آپ کے اہل بیت کے افراد نے آپ کو غسل دیا اور تدفین میں تأخیر اس لیے ہوئی تاکہ مسلمان آپ پر درود ِشریف پڑھ لیں ۔ اس لیے کہ لوگ آپ پر افرادی طور پر درود پڑھتے تھے۔خواتین و حضرات کی ایک بہت بڑی تعداد تھی؛ اسی لیے غسل اور تکفین کے باوجود پیر کے روز تدفین ممکن نہ ہو سکی۔بلکہ منگل کے روز بھی لوگ آکر درود و سلام پڑھتے رہے اور بدھ کے روز تدفین عمل میں آئی۔ ٭ مزید برآں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور میں جو جنگیں ہوئیں ‘وہ امامت کے مسئلہ پر نہیں ہوئیں ۔ اس لیے کہ اہل جمل ‘ اہل صفین ‘اور اہل نہروان ہر گزیہ نہیں چاہتے تھے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ہٹا کر کسی دوسرے کو خلیفہ بنایا جائے۔ نہ ہی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا دعوی یہ تھاکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی جگہ میں امیر ہوں اور نہ ہی طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہمانے ایسی کوئی بات کہی۔ ٭ تحکیم الحکمین سے قبل جن لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جنگیں لڑیں انہوں نے کوئی دوسرا امام بھی مقرر نہیں کیا ہوا تھا جس کی اطاعت کی خاطر جنگ لڑی جاتی۔نہ ہی ان جنگوں کا مقصد قواعد امامت میں سے کسی قاعدہ پرجنگ کرنا تھا اور نہ ہی ان متحارب گروہوں میں سے کوئی خلفاء ثلاثہ کی خلافت پر تنقید کرتے ہوئے لڑ رہا تھا۔اور نہ ہی کسی ایک نے ان کے علاوہ کسی اور کے لیے کسی نص کا دعوی کیا۔ اور نہ ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے جواز پر تنقید کی ۔ ٭ امامت کے جس مسئلہ لوگوں کے مابین اختلاف پیدا ہوا ہے ‘ جیسے کہ روافض ‘معتزلہ اور خوارج اور دوسرے لوگوں کا اختلاف؛ اس پر صحابہ کرام میں سے کسی ایک نے کوئی جنگ کی ہی نہیں ۔ اور نہ ہی کسی نے یہ دعوی کیا کہ: حضرت
Flag Counter