Maktaba Wahhabi

585 - 702
اور خبر ہی نہیں ۔ حالانکہ اس بارے میں لکھی گئی کتابوں میں سے آپ کی کتاب زیادہ جامع اور شامل اور عمدہ ہے۔ لیکن اس باب میں ان سے بھی ایسے امور سرزد ہوگئے جو کہ اہل علم پر مخفی نہیں ۔ شہرستانی اشعریہ کی عقائد اور ابن سینا اور اس جیسے دوسرے فلاسفہ کے عقائد کے عالم تھے۔ آپ کی منقولات میں سب سے عمدہ کلام ان دونوں گروہوں کے متعلق ہے۔ جب کہ صحابہ اور تابعین اور ائمہ اہل سنت و حدیث تو ان کے عقائد و اقوال کے بارے میں نہ ہی اشعری اور نہ ہی اس کے امثال و ہمنوا پوری طرح جانتے تھے۔بلکہ انہوں نے ان کے عقائد ایسے صحیح اور معروف اسناد کے ساتھ سنے ہی نہیں تھے جیسے کہ اہل علم نے نقل کئے ہیں ۔ بلکہ انہوں نے ایسے جملے سن لیے تھے جو کہ حق و باطل پر مشتمل تھے۔یہی وجہ ہے کہ ان مصنفات میں موجود اور ثابت ان کے مقالات کو معتبر من لیا جائے تو اس میں ان سے منقول روایات کی مخالفت پائی جاتی ہے۔یہ تاریخ اور سیرت کی جنس سے مرسل اور مقطوع اور دیگر روایات کی نقل کی طرح ہے۔ ان میں صحیح روایات بھی ہوتی ہیں اور ضعیف بھی۔ پھر عجیب بات یہ ہے کہ رافضی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر ان چیزوں کا انکار کرتے ہیں جو آپ نے حضرات صحابہ مہاجرین و انصار کی موجودگی میں اور ان کی موافقت سے کی تھیں ؛ اور تمام مسلمانوں نے اس پر ان کی اتباع کی ۔ جیسے جمعہ کے دوسری آذان۔جب کہ خود شیعہ نے اذان میں ’’حَیَّ عَلٰی خَیْرِ الْعَمَلِ‘‘ اپنے مخصوص شعار [نشان]کا اضافہ کیا ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ،اور نہ ہی کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی کوئی چیز روایت کی ہے کہ آپ نے یہ الفاظ کہنے کا حکم دیا ہو[تو کیا یہ بدعت نہیں ؟] اگر نقلًا یہ ثابت ہو بھی جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگاکہ ابن عمر رضی اللہ عنہ بعض اوقات یہ الفاظ بطور تاکید کہا کرتے تھے۔ جس طرح بعض صحابہ ’’حَیَّ عَلٰی اَلصَّلٰوۃِ ، حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ‘‘ کے درمیان یہ الفاظ کہا کرتے تھے؛ اس کو نداء الامرا کہتے تھے ؛ اور بعض اسے ندائے تثویب کہا کرتے تھے۔ اکثر علماء کے نزدیک یہ مکروہ ہے۔بعض علماء کرام رحمہم اللہ نے ایسا کہنے کی رخصت دی ہے ۔حضرت عمر؛ ابن عمر رضی اللہ عنہمااور دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اس کی کراہت منقول ہے ۔ ہم یہ بات اضطراری طور پر جانتے ہیں کہ مدینہ طیبہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں جو اذان حضرت بلال اور ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہمادیا کرتے تھے ؛ اور جو آذان حضرت ابو محذورہ رضی اللہ عنہ مکہ میں دیا کرتے تھے؛ اور سعد القرظ مسجد قباء میں دیا کرتے تھے ؛ اس میں یہ مخصوص الفاظ نہیں ہیں جو کہ رافضی شعار سمجھے جاتے ہیں ۔اگر کہیں بھی کوئی ایسی بات ہوتی تو مسلمان اس کو ضرور نقل کرتے اور اس میں کوئی سستی یا کمی بیشی نہ کرتے۔ جیسا کہ اس سے بہت کم درجہ کی چیزیں بھی انہوں نے نقل کی ہیں ۔ جب حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کی نقل کردہ آذان میں مذکورہ الفاظ نہیں تھے ؛ اور کسی نے یہ زیادہ کردہ الفاظ نقل نہیں کیے تو اس سے معلوم ہوا کہ ایک باطل امر اور بدعت ہے۔ یہ چاروں حضرات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے آذان دیا کرتے تھے۔ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی آذان سیکھی تھی۔ اور افضل ترین مساجد میں آذان دیاکرتے تھے؛ مسجد الحرام مکہ مکرمہ؛ مسجد نبوی مدینہ طیبہ ؛ مسجد قباء ؛ مدینہ طیبہ ۔
Flag Counter