Maktaba Wahhabi

571 - 702
محتاج ہو یا نہ ہو۔ جمہورصحابہ کرام کا کہنا ہے کہ جس مال میں سے زکوٰۃ ادا نہ کی جائے وہ کنزہے۔ اﷲتعالیٰ نے قرآن کریم میں ورثاء کے حصص مقرر کیے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ میراث اسی شخص کی ہوتی ہے جس نے اپنے پیچھے مال چھوڑا ہو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں بھی صحابہ میں ایسے لوگ کثیر التعداد تھے جن کے پاس بہت سا مال تھا مگر کسی نے ان کو ہدف ملامت نہ بنایا۔ بہت سے انبیاء علیہم السلام بھی مال دار ہوئے۔ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ لوگوں پر وہ چیز واجب کرنا چاہتے تھے جو اللہ تعالیٰ نے ان پر واجب نہیں کی۔ اور اس چیز میں لوگوں کی مذمت کرنا چاہتے تھے جس میں اللہ تعالیٰ نے ان کی مذمت نہیں کی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ اپنے اس قول میں مجتہد تھے۔اور آپ کو اس اطاعت گزاری پر اللہ تعالیٰ اجر سے نوازیں گے جس طرح آپ کی مانند دوسرے تمام مجتہدین کواجر و ثواب ملے گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان میں : ’’میں نہیں چاہتا کہ میرے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہو ۔ تیسری رات گزر جائے اور اس میں سے ایک دینار بھی میرے پاس باقی ہو ۔‘‘مال کو تیسرے دن سے پہلے نکال دینے کا استحباب ہے وجوب نہیں ۔ ایسے ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان:’’ زیادہ مال دار لوگ بروز قیامت کم درجہ والے ہوں گے۔‘‘ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جس کا مال بہت زیادہ ہوگا روزِ قیامت اس کی نیکیاں اتنی ہی کم ہوں گی؛ ایسا اس وقت ہوگا جب وہ اس مال میں سے اسی کثرت کے باوجود خرچ نہیں کرے گا۔ اس سے یہ واجب نہیں ہوتا کہ جس کی نیکیاں کم ہوں گی وہ جہنم میں جائے گا؛ جب تک کہ وہ کبیرہ گناہ کا ارتکاب نہ کرے ؛ یا پھر اللہ تعالیٰ کے عائد کردہ فرائض میں سے کسی فریضہ کو ترک نہ کرے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ پوری طرح سے اپنی رعایا کی نگہبانی اوراصلاح کیا کرتے تھے ۔ان میں سے کسی کوظلم کرنے کی جرأت نہیں ہوتی تھی ؛ نہ ہی اغنیاء کو اور نہ ہی فقراء کو۔جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا دور آیا تو مالدار لوگوں نے دنیا میں بڑی وسعت اختیار کرلی۔یہاں تک کہ بہت سارے لوگ مباحات میں انواع واقسام اور مقدار کے لحاظ سے بہت آگے نکل گئے۔ادھر حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے اس میں اس حد تک مبالغہ آمیزی سے کام لیا کہ لوگوں کو ایک مباح چیز سے بھی روک دیا؛ یہی بات فتنہ کا سبب بنی اور پھرحضرت ابوذر رضی اللہ عنہ ان سے الگ ہو گئے۔اس کے علاوہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے کوئی دوسری غرض نہیں تھی۔ ’’ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کا سچے لہجے والا ہونا‘‘اس سے کہیں بھی یہ لازم نہیں آتا کہ آپ دوسرے لوگوں افضل ہوں ۔ بلکہ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ مومن تھے مگر ان میں کمزوری موجود تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو مخاطب کرکے فرمایا تھا: اے ابو ذر! میں دیکھتا ہوں کہ تم کمزور ہو میں تمہارے لیے وہی چیز پسند کرتا ہوں جو اپنے لیے۔ دیکھیے دو
Flag Counter