Maktaba Wahhabi

522 - 702
عام :....عامۃ المسلمین میں سے کسی ایک شخص میں مخلوط اعمال جمع ہوتے ہیں ۔ ایسے اعمال بھی ہوتے ہیں جن پر وہ ثواب کا مستحق ہے‘ اور ایسے اعمال بھی جن پر وہ سزا کا مستحق ہے۔اس عموم میں صحابہ ‘ تابعین اورمسلمان ائمہ سب لوگ شامل ہیں ۔ اس مسئلہ میں اختلاف خوارج اورمعتزلہ کے ساتھ ہے ۔ وہ کہتے ہیں : آخرت میں لوگ دو ہی قسم کے ہیں : ۱۔ جنہیں ثواب دیا جائے گا۔ ۲۔ جنہیں عذاب دیا جائے گا۔اور جو کوئی جہنم میں داخل ہوگیا وہ کبھی بھی جہنم سے باہر نہیں آئے گا؛ نہ ہی کسی شفاعت کی بنا پر اور نہ ہی کسی اور بنا پر ۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ : کبیرہ گناہ تمام نیکیوں کوختم کردیتے ہیں ۔اور ایسے انسان کے پاس ایمان نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہتی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مشہور اسناد کیساتھ ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا:’’کچھ لوگوں کو جل کر کوئلہ بن جانے کے بعد جہنم سے نکالا جائے گا اور ایسے ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی امت کے کبیرہ گناہ والے لوگوں کے متعلق شفاعت کرنا بھی صحیح احادیث سے ثابت ہے۔اس بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول احادیث اتنے بڑے تواتر کے ساتھ ثابت ہیں کہ ایسا تواتر ؛ چوری کے نصاب ؛ زانی کے رجم ؛ زکوٰۃ کے نصاب ؛ وجوب شفعہ ؛ داداکی میراث اوران جیسی دوسری احادیث کو نصیب نہیں ہوا۔ لیکن اس اصل کی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ جیسے لوگوں کے لیے کوئی ضرورت نہیں ہے جنہیں جنت کی بشارت دی گئی ہے۔اوریہ کہ اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہوگیا تھا؛ اور وہ آخرت میں انہیں کوئی سزا نہیں دے گا۔بلکہ ہم یہ بھی گواہی دیتے ہیں کہ عشرہ مبشرہ جنتی ہیں ۔اور بیعت رضوان کرنے والے جنتی ہیں ۔ اہل بدر جنتی ہیں ۔ جیسا کہ صادق و مصدوق رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ؛ جو کہ وحی کے بغیر اپنی زبان سے بات تک نہیں کرتے ؛ بلکہ آپ جو کچھ کہتے ہیں وہ وحی ہوتا ہے ؛ آپ سے یہ روایات ثابت ہیں ۔ [جب مسلمانوں میں فتنہ پیدا ہوا تو] جن لوگوں کے لیے جنت کی گواہی دی گئی ہے ‘ان میں سے بھی کئی حضرات اس فتنہ میں داخل ہوگئے۔جس نے حضرت عماربن یاسر رضی اللہ عنہ کو قتل کیا ؛ اس کا نام ابو غادیہ تھا؛ یہ بھی بیعت رضوان میں شرکت کرنے والے صحابی تھے۔ ابن حزم نے یقین کے ساتھ دوٹوک طور پر آپ کا نام لیا ہے۔ ہم حضرت عمار رضی اللہ عنہ کے جنتی ہونے کی گواہی دیتے ہیں ؛اور آپ کا قاتل اگر واقعی بیعت رضوان والوں میں سے تھا تو اس کے لیے بھی جنتی ہونے کی گواہی دیتے ہیں ۔جب کہ حضرت عثمان ‘ حضرت علی حضرت طلحہ حضرت زبیر رضی اللہ عنہم کی قدر و منزلت تو دوسرے حضرات کی نسبت بہت ہی بلندہے۔اگر ان سے کچھ بھی ہوگیا ہوتا تب بھی ہم یہ نہیں کہتے کہ ان میں سے کوئی ایک گناہ نہیں کرسکتا ۔بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ اگر ان میں سے کسی ایک سے کوئی گناہ ہوجائے تو اللہ تعالیٰ اسے آخرت میں عذاب نہیں دیں گے۔ اور نہ ہی انہیں جہنم میں داخل کرے گا۔بلکہ ہم بغیر کسی شک و شبہ کے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں جنت میں داخل کرے گا۔ آخرت کی سزا ان سے کئی اسباب کی بنا پر ختم ہوسکتی ہے:
Flag Counter