Maktaba Wahhabi

521 - 702
اہل سنت و الجماعت یہ بات آپ کے کہنے کے بغیر بھی جانتے ہیں ۔ آپ اس بات سے عند اللہ سب سے زیادہ بچ کر رہنے والے تھے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل پر معاونت کریں یا اس پر راضی رہیں ۔ جو کچھ شیعان علی نے اپنی طرف سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں گھڑلیا ہے؛ وہ اس سے زیادہ خطرناک ہے جو شیعان عثمان حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں کہتے ہیں ۔ اس لیے کہ ان میں سے بہت سارے لوگ ایسے ہیں جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو کافر کہتے ہیں ۔ جبکہ شیعان عثمان رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کافر نہیں کہتے۔ جو کوئی آپ کو کافر نہ کہے ؛ گالی دے اور بغض رکھے ؛ وہ اس سے بڑھ کر ہے جو کچھ شیعان عثمان رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بغض رکھتے تھے۔ جب کہ اہل سنت حضرت عثمان و حضرت علی رضی اللہ عنہمااور دیگر تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت کرتے ہیں اوران سے دوستی کا دم بھرتے ہیں ۔اور شیعیت اور دین میں تفرقہ پیدا کرنے والے ان تمام گروہوں سے برأت کا اظہار کرتے ہیں جو کسی ایک کی محبت کو واجب کہتے ہیں او ردوسرے صحابہ کرام سے دشمنی رکھتے ہیں ۔ اہل سنت والجماعت کے مابین یہ امر معلوم چلا آرہاہے کہ ان چاروں خلفاء کرام کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کی بشارت دی تھی۔اوران کے علاوہ حضرت زبیر ؛ اور حضرت طلحہ رضی اللہ عنہما اور ان کے علاوہ دیگر وہ صحابہ جنہیں جنت کی بشارت ملی ہے [وہ سب جنتی ہیں ]۔ اس موضوع پر ہم نے اپنے مقام پر تفصیل سے کلام کیاہے ۔ سلف میں سے ایک گروہ کا یہ بھی خیال تھا کہ جنتی ہونے کی گواہی صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہی دی جا سکتی ہے۔ یہ قول محمد بن الحنفیہ ؛ امام اوزاعی اور بعض دوسرے محدثین جیسے علی المدینی رحمہم اللہ کا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ : وہ صحابہ کرام [جن کے لیے جنت کی بشارت دی گئی ہے ] وہ جنت میں ہیں ۔لیکن وہ یہ نہیں کہتے تھے کہ : ہم ان کے لیے جنت کی گواہی دیتے ہیں ۔حق بات تو یہ ہے کہ جیسے ہم نے اہل سنت والجماعت کے مذہب میں پایا ہے ؛ ہم ان حضرات کے لیے اپنی زبانوں سے جنتی ہونے کی گواہی دیتے ہیں ۔اس مسئلہ میں امام احمد بن حنبل اور علی المدینی کا مناظرہ بھی ہوا ہے۔ رحمہم اللہ ۔ یہ بات ہمارے ہیں صادق الامین کی بتائی ہوئی خبرکی بنا پر معلوم ہے۔ اس مسئلہ کی تفصیل کے لیے کوئی دوسرا موقع در کار ہے۔یہاں پر ان امور کا تذکرہ مقصود ہے جن کی وجہ سے ان پر طعن کیا جارہا ہے۔ ایک گروہ ان کی شان میں غلو کرتے ہوئے انہیں معصوم یا معصوموں جیسے قراردیتے ہیں ۔اور کچھ ناکارہ لوگ ایسے بھی ہیں جو ان حضرات پر بعض امور کی وجہ سے طعن وتشنیع کرتے ہیں اور انہیں برا بھلا کہتے ہیں ۔ حالانکہ یہ امور اگر سچے تھے تو تب بھی ان لوگوں کے گناہ اللہ تعالیٰ نے معاف کردیئے ہیں ۔اور اللہ تعالیٰ ان امور کی وجہ سے ان حضرات سے کوئی مؤاخذہ نہیں کرے گا۔اس لیے کہ ان کے جتنے بھی وہ افعال ہیں جن پر لوگوں کو اعتراض ہے یا تو وہ خطأ ہیں ۔یا پھر اجتہادی امور ہیں ۔اگر انہیں خطاء بھی شمار کیا جائے تو بھی اللہ تعالیٰ نے اس امت سے خطا پر مؤاخذہ ختم کردیاہے۔ جبکہ گناہ کے بخشے جانے کے کئی ایک اسباب ہیں جو کہ ان حضرات کے ہاں پائے جاتے تھے۔ان اسباب کے دو اصول ہیں : خاص اور عام ۔
Flag Counter