Maktaba Wahhabi

508 - 702
[سلسلہ جوابات]: ٭ شیعہ مصنف کے وارد کردہ جملہ اعتراضات کا جواب علی الترتیب یہ ہے کہ اگر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے عمال و حکام نے ان سے خیانت کی اور ان کی نافرمانی کا ارتکاب کیا تھا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نائبین اس ضمن میں ان سے دو قدم آگے ہی تھے ۔لوگوں نے اس مسئلہ پر مستقل کتابیں لکھی ہیں کہ جن لوگوں کوحضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنا نائب مقرر کیاتھا مگر انہوں نے مال لے لیا اور آپ کے ساتھ خیانت کی۔اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے جاملے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے قاتل عبید اﷲ بن زیاد کے والد زیاد بن ابی سفیان کو والی مقرر کیا تھا ۔ آپ نے اشتر نخعی اور محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ جیسے لوگوں کو بھی حاکم مقرر کیا تھا۔ حالانکہ کسی بھی عاقل کو اس بات میں ذرا بھر بھی شک نہیں ہوسکتا کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ ان سب سے بہتر تھے۔ یہ امر باعث حیرت ہے کہ شیعہ جس امر میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کوہدف ملامت بناتے ہیں اسی بات کے بارے میں یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اس میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے سبقت لے گئے تھے۔ مثلاً شیعہ کہتے ہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنے قرابت داروں اور بنو امیہ کو مناصب جلیلہ پر فائز کیا تھا۔ دوسری جانب یہ بات بھی معلوم شدہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے والد اور والدہ کی جانب سے اپنے قرابت داروں کو حاکم و والی مقرر کیا۔ مثلاً حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے بیٹوں عبداللہ اور عبید اﷲ بن عباس کو والی مقرر کیا۔عبیداللہ بن عباس کویمن پر والی مقرر کیا۔ قُثم بن عباس رضی اللہ عنہ مکہ اور طائف پر والی بنایا۔مدینہ پر سہل بن حنیف کو اور کہاجاتا ہے کہ ثمامہ بن عباس رضی اللہ عنہ کووالی بنایا ۔جب کہ بصرہ پر عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما۔[ یہ سب حضرت علی رضی اللہ عنہ کے چچا زاد بھائی تھے]۔اوراپنے لے پالک محمد بن ابی بکر کو والیٔ مصر مقرر کیا جو آپ کا تربیت کردہ تھا۔[کیوں کہ حضرت صدیق اعظم رضی اللہ عنہ کے انتقال کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کی والدہ کے ساتھ نکاح کر لیا تھا ۔حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنی ہمشیرہ ام ہانی رضی اللہ عنہا کے بیٹے جعدہ بن ابی ہبیرہ کو خراسان کا والی مقرر کیا تھا]۔ امامیہ کا دعویٰ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنی اولاد کو؛اور پھر ان کی اولاد کو اور پھر ان کی اولاد[یعنی پوتوں پڑپوتوں اور لکڑ پوتوں کو] صراحۃً والی و امیر مقرر کیا تھا۔ یہ ایک بدیہی بات ہے کہ اگر اقارب کو عہدے تفویض کرنا جرم ہے تو ان کوبعض علاقوں کی ولایت کی نسبت سے خلافت عظمی پر فائز کرنا جرم عظیم ہے۔ نیز یہ کہ چچا زاد بھائیوں کی نسبت اولاد کی اولاد کو والی مقرر کرنا مذموم ترہے۔یہی وجہ ہے کہ علماء کرام رحمہم اللہ کے ایک قول کے مطابق جو وکیل [ ایجنٹ] یا ولی اپنی ذات کے لیے لین دین کرنے کا مجاز نہ ہو ‘ وہ اپنی اولاد کے لیے بھی لین دین نہیں کرسکتا۔ اورایک قول کے مطابق جس انسان نے وکیل کو کچھ مال دیا ہو کہ وہ جسے چاہے نواز دے ؛وہ اس میں سے نہ ہی خود کچھ رکھ سکتا ہے اور نہ ہی اپنی اولاد کو دے سکتا ہے ۔ ایسے ہی خلافت کے بارے میں بھی اختلاف ہے کہ کیا خلیفہ اپنی اولاد کے لیے وصیت کرسکتا ہے یا نہیں ؟ اس میں دو قول ہیں ۔ باپ کی گواہی بیٹے کے حق میں ناقابل اعتماد ہے ؛اکثر علماء کا یہی مسلک ہے۔ جب کہ اپنے چچازادوں
Flag Counter