Maktaba Wahhabi

492 - 702
کون سی حاجت ایسی ہوسکتی ہے کہ آپ زید کو چھوڑ کر عمرو سے محبت کریں حالانکہ اس سے کوئی دنیاوی فائدہ بھی حاصل نہ ہوسکتا ہو؟پھر جہاں تک آپ کے خاندان کا تعلق ہے ۔آپ نے یہ حکم دیا تھا کہ ان پر موجود قرض صرف ان کے اقارب کے اموال سے ادا کیا جائے ۔ اگر اس قرض کی ادائیگی کے لیے عمر رضی اللہ عنہ کی اولاد کا مال کافی نہ ہو تو پھر بنی عدی بن کعب سے مانگنا۔ اگر ان کا مال بھی ناکافی ہو توقریش سے طلب کر لینا۔لیکن بیت المال سے کچھ بھی نہ لیا جائے۔ اور اس کے سوا کسی اور سے کچھ بھی نہ لیا جائے ۔تو پھر آپ کو کون سی ایسی ضرورت پیش آسکتی ہے کہ حضرت عثمان کو یا حضرت علی رضی اللہ عنہماکو یا کسی دوسرے کو مقدم کریں ؟ حالانکہ نہ ہی آپ کو اپنے بعد اپنے اہل خانہ کے لیے کسی کی ضرورت ہے اور نہ ہی اپنے قرض کی ادائیگی کے لیے ؟ انسان اس سے محبت کرتا ہے جو اس کے بعد اس کی ضروریات کا خیال رکھے۔یا اس طرح کا کوئی دیگر معاملہ ہو۔ پھر جس انسان کی کسی معاملہ میں کوئی حاجت ہی نہ ہو تو پھر کس بنا پر وہ کوئی ایسا کام کرسکتا ہے ؟ پھر آپ نے اپنے آخری وقت میں جب کہ کافر بھی مومن ہو جاتا ہے اور فاسق و فاجر بھی اﷲسے ڈرنے لگتا ہے کسی کا لحاظ کیوں کر کر سکتے تھے؟ اگر آپ جانتے ہوتے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ بنا بر نص یا عظمت و فضیلت کی وجہ سے زیادہ حق دار ہیں تو آپ رضائے الٰہی حاصل کرنے کے لیے ان کو منصب خلافت پر فائز کرتے ۔اللہ کی بارگاہ میں توبہ کرتے؛اور اپنے گناہوں کو ہلکا کرتے۔اس لیے کہ اب آپ کے لیے کوئی دنیاوی رکاوٹ بھی باقی نہیں رہ گئی تھی؛ سوائے اس قرض کے۔اگر اس سے قرض ادا کرنے کی امید کا معاملہ ہوتا تو تب کچھ کہا جاسکتا تھا۔[لیکن ایسا بھی نہیں تھا؛ اس لیے کہ آپ نے صرف اپنے مال سے قرض ادا کرنے کی وصیت کردی تھی]۔اور یہ بات عادۃً محال ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اﷲسے ملتے وقت ایک ایسا کام کرتے جو دین ودنیا میں آپ کے لیے مفید نہ تھا اور جس پر عذاب الٰہی میں گرفتار ہونا ناگزیر تھا۔ بلکہ ایسے وہ آدمی بھی نہیں کرسکتا جس کی کسی چیز سے کوئی غرض ہی نہ ہو اور وہ موت کے وقت مہلت مل کر صحت اور عقل کے ہوتے ہوئے اپنے دین کو چھوڑ دے جس کی اسے ضرورت ہے ۔ بفرض محال اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ دشمن رسول بھی تھے(جیسا کہ شیعہ کہتے ہیں ) تاہم صحبت نبوی کی برکت سے آپ بہت کچھ حاصل کر چکے تھے۔ پھر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بے حد ذہین و فطین تھے۔ دلائل نبوت جن سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بہرہ ور تھے آفتاب نصف النہار کی طرح واضح تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جانتے تھے کہ اگر میں نے عداوت رسول کو ترک نہ کیا تو بروز آخرت عذاب الٰہی میں گرفتار ہونا پڑے گا۔ اس پر مزید یہ کہ موت کے وقت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنانے میں آپ کی کوئی غرض نہیں تھی[آخر اس سے آپ کا کون سا مقصد حل ہو جاتا ؟]اور آپ کس غرض کے پیش نظر مستحق کو اس کے حق سے محروم رکھتے ؟ [ آخر کیا وجہ تھی کہ ( بقول شیعہ ) آپ آخری دم تک آلِ رسول اور آپ کے چچا زاد بھائی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی عداوت پر تلے رہے؟ حالانکہ عمر رضی اللہ عنہ وہ شخص تھے جس نے اپنی خلافت کے زمانہ میں انتہائی سادہ زندگی بسر کی۔ موٹے جوتے پہنے۔ عدل وانصاف کے تقاضوں پر عمل کیا، مال جمع کرنے اور جاہ و منصب سے
Flag Counter