Maktaba Wahhabi

491 - 702
اور یہ کہ عبدالرحمن کبھی بھی اپنے بھائی سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ آپ کے چچا زاد بھائی تھے۔‘‘[انتہیٰ کلام الرافضی] [جواب]:[ہم پوچھتے ہیں کہ رافضی مصنف کو]یہ کس نے بتایا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ کہا ہے؟ اور [اگر بطور مناظرہ ] بالفرض اس بات کو درست بھی مان لیں تو اس سے یہ خیال نہیں کرنا چاہیے کہ آپ کی کوئی خاص غرض تھی یا پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی محبت میں انہیں خلیفہ بنانا چاہتے تھے۔اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی دشمنی کی وجہ سے انہیں خلافت سے محروم رکھنا چاہتے تھے۔ اس لیے کہ اگر آپ کا یہی مقصود ہوتا تو آپ پہلے سے خود ہی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنالیتے۔ اور اس میں کوئی دو آدمی بھی اختلاف نہ کرسکتے۔ اور یہ کیسے ہوسکتا تھا جبکہ جو لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بعد زندہ رہے انہوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو تقدیم دی۔ حالانکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کو متعین نہیں کیا تھا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنانے سے انھیں کون سی چیز مانع ہو سکتی تھی، اگر آپ ایسا کرتے تو سب لوگ آپ کا حکم مان لیتے۔خواہ ویسے ہوتا جس اہل ایمان کہتے ہیں کہ : آپ اہل خیر اہل دین اور عادل تھے ۔ یا پھر اس طرح جیسے منافقین اور طعنہ زنی کرنے والے کہتے ہیں کہ آپ ظالم اور شریر تھے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ کسی سے ڈرا نہیں کرتے تھے۔ یہاں تک روافض ( قاتلہم اللہ) ان کو امت محمدی کا فرعون کہہ کر پکارتے ہیں ۔[1]جب زندگی بھر آپ کسی سے نہیں ڈرا کرتے تھے؛ آپ نے اس وقت حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو بیعت کے لیے آگے بڑھا یا جب یہ نظام اپنے ابتدائی مرحلہ میں تھا۔ اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد لوگوں کے دلوں میں کسی ایک متعین شخص کی اطاعت راسخ نہیں ہوئی تھی۔ اور اس وقت حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو کوئی اختیار بھی حاصل نہیں تھا۔ تو پھر آپ کو موت کے وقت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنانے سے کس بات کا خوف ہوسکتا تھا جب کہ سارے لوگ آپ کی بات مان رہے تھے ؛ اور لوگوں میں اطاعت کا جذبہ راسخ ہوچکا تھا۔ پھر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو کیا فائدہ حاصل ہوتا جو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے نہیں ہو سکتا تھا؟ آپ کے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے درمیان قبیلہ یا غیر قبیلہ کی وجہ سے اتنے تعلقات اور قرابت داری بھی نہیں تھی جو قرابت داری حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تو اپنے بیٹے کو بھی خلافت کے امیدواروں میں سے نکال دیا تھا۔ سعید بن زید رضی اللہ عنہ کو قریبی رشتہ دار [چچا زاد بھائی ]ہونے کے باوجود اہل شوریٰ میں داخل نہ کیا۔ حالانکہ آپ عشرہ مبشرہ میں سے ایک تھے ۔ اور آپ کا تعلق بنی عدی کے قبیلہ سے تھا۔ اور نہ ہی آپ نے بنی عدی میں سے کسی کو والی مقرر کیا ۔ بس صرف ایک آدمی کو والی مقرر کیا تھا پھر اسے معزول کردیا۔ لوگوں کا اتفاق تھا کہ آپ کو اللہ کے دین کے معاملہ میں کسی ملامت گر کی ملامت کی چنداں پرواہ نہیں ہوتی۔تو پھر
Flag Counter