Maktaba Wahhabi

480 - 702
کوضائع کرے گا ۔بیشک میرا وقت آگیا ہے ۔ پس اب خلافت ان چھ افراد کی شوری میں سے ہوگی ۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے رضامندی کی حالت میں فوت ہوئے ہیں ۔‘‘ [ توآپ نے یہ معاملہ چھ صحابہ کی کمیٹی کے سپرد کردیا۔ جن سے آخری وقت تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم راضی رہے تھے]۔ یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام علیہم السلام کو مبعوث فرمایا؛ اور کتابیں نازل فرمائیں ؛ تاکہ ان کے ذریعہ سے لوگوں کی جس قدر ممکن ہو اصلاح ہوسکے۔ان سے مقصود یہ نہیں تھا کہ فساد بالکل ہی ختم ہوجائے ۔اس لیے کہ انسانی طبیعت کے لحاظ سے ایسا ہونا نا ممکن ہے۔ کسی قدر فساد کا ہوتے رہنا ضروری ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً قَالُوْٓا اَتَجْعَلُ فِیْہَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْہَا وَ یَسْفِکُ الدِّمَآئَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَ نُقَدِّسُ لَکَ﴾ [البقرۃ ۱۳۰] ’’میں زمین میں خلیفہ بنانے والا ہوں تو انہوں نے کہا کہ ایسے شخص کو کیوں پیدا کرتا ہے جو زمین میں فساد کرے اور خون بہائے ہم تیری تسبیح اور پاکیزگی بیان کرنے والے ہیں ۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ کوئی امت ایسی نہیں گزری جس میں شر اور فساد نہ ہو۔ہم سے پہلے بہترین امت بنی اسرائیل کے لوگ تھے ۔ ان کے بارے میں جس شر اور فساد کا علم ہوسکا ہے وہ جملہ فساد کا کچھ حصہ ہے ۔ ہماری امت اللہ کے ہاں سب سے بہترین اور عزت والی امت ہے۔اور اس امت کے پہلے تین قرون بہترین قرون ہیں ۔ اور ان میں سب سے افضل صحابہ کرام ہیں ۔ہماری امت میں بھی شر بہت زیادہ ہے ۔ لیکن یہ شر اور فساد بنی اسرائیل کے شر و فساد کی نسبت بہت کم ہے ۔ اور بنی اسرائیل کا شر ان لوگوں کے شر سے بھت کم ہے جو کہ کافر ہی رہے اور انہوں نے کسی بھی نبی کی بات نہیں مانی ۔ جیسے فرعون اور اس کی قوم کے لوگ ۔ہر وہ خیر و بھلائی جو بنی اسرائیل میں پائی جاتی ہے امت اسلامیہ میں بھی ویسی ہی خیر و بھلائی بلکہ اس سے بہتر خیر موجود ہے۔یہی حال اس امت کے پہلے لوگوں کا اور آخری لوگوں کا ہے۔ہر وہ خیر و بھلائی جو بعد کے لوگوں میں پائی جاتی ہے ؛ متقدمین میں اس سے بڑھ کر خیر و بھلائی موجود تھی۔اور ہر وہ برائی جو کہ پہلے لوگوں میں تھی ؛ بعد میں آنے والوں میں اس سے بڑھ کر برائی اور فساد موجود ہے ۔ اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿فَاتَّقُوا اللّٰہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ﴾ [تغابن۱۶] ’’ تم سے جتنا ہوسکے اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو۔‘‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ چھ صحابہ کرام جن سے آخری وقت تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم راضی رہے تھے؛ حضرت عمر رضی اللہ عنہ خلافت کامعاملہ ان چھ صحابہ کی کمیٹی کے سپرد کردیا۔اس وقت میں ان سے افضل کوئی دوسرا نہیں تھا ۔ لیکن ان میں سے ہر ایک میں کوئی نا کوئی عنصر ایسا بھی تھا جس کو آپ اچھا نہیں سمجھتے تھے۔ان کے علاوہ دوسرے لوگوں میں کئی ایک مسائل ایسے تھے جن کو اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا۔یہی وجہ ہے کہ حضرت عثما رضی اللہ عنہ کے بعد کوئی ایسا انسان خلیفہ نہیں بنا جو سیرت و کردار میں
Flag Counter