Maktaba Wahhabi

48 - 702
حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے کہا: حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو بلا لاؤ۔میں ان کو بھی بلا لایا۔ تو ان سے سرگوشی کرتے رہے۔ یہاں تک کہ صبح کی اذان نے ان کو جدا کیا۔ جب لوگوں نے صبح کی نماز پڑھی؛تو یہ لوگ منبر کے پاس جمع ہوئے۔مہاجرین اور انصار میں سے جو لوگ موجود تھے؛ ان کو بلا بھیجا۔ اور سرداران لشکر کو بلا بھیجا۔ یہ سب لوگ اس سال حج میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کیساتھ شریک ہوئے تھے۔ جب سب لوگ جمع ہو گئے تو حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے خطبہ پڑھا پھر کہا کہ: اما بعد! اے علی رضی اللہ عنہ !میں نے لوگوں کی حالت پر نظر کی ہے تو دیکھا کہ وہ عثمان رضی اللہ عنہ کے برابر کسی کو نہیں سمجھتے ہیں ۔ اس لیے تم اپنے دل میں میری طرف سے کچھ خیال نہ کرنا۔ توحضرت علی رضی اللہ عنہ نے(حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے) کہا:’’ میں اللہ اور اس کے رسول اور آپ کے دونوں خلفاء کی سنت پر تمہارے ہاتھ پر بیعت کرتا ہوں ۔ عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے بھی بیعت کی اور تمام لوگوں نے مہاجرین و انصار، سرداران لشکر اور مسلمانوں نے بیعت کی۔‘‘[صحیح بخاری: ۲۰۸۶] اس رافضی نے جو روایت ذکر کی ہے‘ اس میں اتنے جھوٹ ہیں جن سے اللہ تعالیٰ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو پاک و مبرا رکھا ہے۔ مثال کے طور پر اپنے بھائی‘ اپنے چچا اور بیوی کو بطور حجت کے پیش کرنا۔ حالانکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ان لوگوں سے افضل ہیں ۔اور آپ یہ بھی جانتے تھے کہ مخلوق میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہوگا جو سب سے زیادہ تقوی والا ہوگا۔ اس کے بجائے اگر حضرت عباس رضی اللہ عنہ کہتے : کیا تم میں میرے بھائی حمزہ جیسا کوئی ہے ؛ اور کیا تم میں میرے بھتیجوں محمد علی اور جعفرجیسا کوئی ہے ؟ تو یہ دلیل بھی بالکل ویسے ہی ہوتی ۔ بلکہ کسی انسان کا اپنے بھتیجوں کو بطور حجت پیش کرنا اس کے چچاؤں کو بطور حجت پیش کرنے سے زیادہ بہتر اور اہم ہوتا ہے۔اور اگر اس موقع پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ یہ کہتے کہ : کیا تم میں کوئی اور ہے جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دو بیٹیوں سے شادی کی ہو؟ تو یہ حجت بھی اسی حجت کی طرح ہوتی کہ : تم میں سے کسی کی بیوی میری بیوی کی طرح ہے ؟ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا انتقال بھی شوری سے پہلے ہی ہوچکا تھا جیسے حضرت عثمان کی بیویوں رقیہ اور ام کلثوم کا انتقال شوری سے پہلے ہوگیاتھا۔البتہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا انتقال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے چھ ماہ بعد ہوا تھا۔ یہی حال اس دعوی کا ہے : ’’ کیا تم میں کسی کے بیٹے میرے بیٹوں جیسے ہیں ۔‘‘اس میں متعدد روایات ہیں ۔اورجیسا کہ یہ قول: میں نے اللہ تعالیٰ سے کبھی کوئی چیز نہیں مانگی مگر اس جیسی چیزتمہارے لیے بھی مانگی ہے ۔ اور یہی حال اس روایت کا بھی ہے کہ میرے علاوہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ہی یہ سورت پہنچاسکتے ہیں ۔‘‘ یہ ایک کھلا ہوا جھوٹ ہے ۔ علامہ خطابی نے اپنی کتاب ’’ شعار الدین ‘‘ میں لکھا ہے : ’’ آپ کی طرف منسوب یہ فرمان : میری طرف سے یہ سورت میرے اہل بیت میں سے ہی کوئی ایک پہنچاسکتا ہے ۔‘‘یہ ایک ایسی چیز ہے جسے اہل کوفہ نے زیدبن یثَیع سے لیا
Flag Counter