Maktaba Wahhabi

47 - 702
حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے اپنا حق حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کو دیدیا۔ پھر حضرت عبدالرحمن بن عوف نے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے کہا تم دونوں میں سے جو شخص اس سے برات کا اظہار کرے گا ہم خلافت کا معاملہ اسی کے سپرد کریں گے اور اس پر اللہ اور اسلام کے حقوق کی نگہداشت لازم ہوگی ہر ایک کو غور کرنا چاہیے کہ اس کے خیال میں کون شخص افضل ہے اسی کو خلیفہ کر دے۔ اس پر شیخین یعنی عثمان و علی رضی اللہ عنہمانے سکوت اختیارکیا ۔ جب یہ حضرات چپ رہے تو عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے کہا کیا تم دونوں خلیفہ کے انتخاب کا مسئلہ میرے حوالے کرتے ہو؟ بخدا مجھ پر لازم ہے کہ میں تم سے افضل کے ساتھ کوتاہی نہ کروں ۔ دونوں نے کہا یہ مسئلہ آپ کے حوالے کیا جاتاہے۔ عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے دونوں میں سے ایک یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا کہ تم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرابت اور اسلام میں قدامت حاصل ہے، جو تم کو معلوم ہے خدا کے واسطے تم پر لازم ہے اگر میں تمہیں خلیفہ بنا دوں تو تم عدل وانصاف کرنا۔ اور اگر میں عثمان رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنا دوں تو اس کی بات سننا اور اطاعت کرنا۔ اس کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑا۔ اور ان سے بھی ایسا ہی کہاچنانچہ عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے عہد لیا پھر کہا: اے عثمان رضی اللہ عنہ اپنا ہاتھ اٹھاؤ؛ پھر حضرت عبد الرحمن رضی اللہ عنہ نے اور ان کے بعد علی رضی اللہ عنہ نے ان سے بیعت کی؛ پھر مدینہ والوں نے حاضر ہو کر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے بیعت کی۔‘‘ [صحیح بخاری:ح۹۱۴] مسور بن مخرمہ سے روایت ہے: وہ لوگ جنہیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے خلافت کا اختیار دیا تھا جمع ہوئے اور مشورہ کیا۔ ان لوگوں سے حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں تم سے اس معاملہ میں جھگڑنے والا نہیں ہوں لیکن اگر تم چاہو تو تم ہی میں سے کسی کو تمہارے لیے منتخب کر دوں ۔ چنانچہ ان لوگوں نے یہ معاملہ حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ پر چھوڑ دیا ۔ ’’لوگ عبدالرحمن رضی اللہ عنہ کے پیچھے ہوئے ؛یہاں تک کہ ان بقیہ لوگوں میں سے کسی کے پاس ایک آدمی بھی نظر نہیں آتا تھا۔حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ لوگوں سے ان راتوں میں مشورہ کرتے رہے۔ یہاں تک کہ جب وہ رات آئی جس کی صبح میں ہم لوگوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ مسور کا بیان ہے کہ تھوڑی رات گزر جانے کے بعد عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے میرا دروازہ اس زور سے کھٹکھٹایا کہ میری آنکھ کھل گئی۔ انہوں نے کہا کہ: میں تمہیں سوتا ہوا دیکھتا ہوں حالانکہ اللہ کی قسم! ان راتوں میں میری آنکھ بھی نہیں لگی۔ تم چلو اور زبیر رضی اللہ عنہ اور سعد رضی اللہ عنہ کو میرے پاس بلاؤ۔ میں ان دونوں کو بلا لایا۔ ان سے آپ نے مشورہ کیا۔ پھر مجھے بھی بلا لیا۔ پھرمجھ سے کہا: جاؤ اورعلی رضی اللہ عنہ کو بلا لاؤ۔میں ان کو بلا لایا ۔ ان سے بہت رات گئے تک سرگوشی کرتے رہے، پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ ان کے پاس سے اٹھے تو ان کے دل میں خلافت کی خواہش تھی اور حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ کو ان کی خلافت سے اختلاف امت کا اندیشہ تھا۔ پھر
Flag Counter