Maktaba Wahhabi

460 - 702
ان کے بعض اصحاب سے منقول ہے۔ دوسرا فتوی اس کے برعکس بھی نقل کیا گیا ہے؛جو کہ جمہور کا قول بھی ہے۔آپ کے اکثر اصحاب نے اس مسئلہ میں آپ کی مخالفت کی ہے۔ یہی مذہب امام ابو حنیفہ ؛ امام شافعی اور احمد بن حنبل رحمہم اللہ کا بھی ہے۔ وہ کہتے ہیں : ہر نیک اور بد حکمران کی قیادت میں جہاد کیا جائے گا؛ جب اس کا یہ جہاد بذات خود جائز ہو۔ جب امام کفار؛ مرتدین یاعہد و پیمان توڑنے والوں ؛یا خوارج سے مشروع جنگ کرے تو اس کی قیادت میں جہاد کیا جائے گا۔اور اگر ایسی لڑائی لڑے جو ناجائز ہو تو پھر اس کا ساتھ نہیں دیا جائے گا۔ پس نیکی اور بھلائی کے کام میں اس کے تعاون ہوگا؛ گناہ اور سرکشی کے کام پر نہیں ہوگا۔جیسا کہ کوئی انسان رہبر حج و عمرہ کے ساتھ سفر کرتا ہے؛ بھلے قافلہ میں کوئی ظالم کیوں نہ ہو۔ ظالم کے ساتھ ظلم پر تعاون کرنا جائز نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ وَ تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَ التَّقْوٰی وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ﴾[المائدۃ ۲] ’’نیکی اور بھلائی میں تعاون کرو؛ اورگناہ اور سرکشی پر آپس میں تعاون نہ کرو ۔‘‘ حضرت موسی علیہ السلام نے فرمایا تھا: ﴿ رَبِّ بِمَآ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ فَلَنْ اَکُوْنَ ظَہِیْرًا لِّلْمُجْرِمِیْنَ﴾ [القصص ۱۷] ’’اے میرے رب! اس وجہ سے کہ تو نے مجھ پر انعام کیا، تو میں کبھی بھی مجرموں کا مدد گار نہیں بنوں گا۔‘‘ اور فرمان الٰہی ہے:﴿وَ لَا تَرْکَنُوْٓا اِلَی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّکُمُ النَّارُ ﴾[ہود ۱۱۳] ’’ظالموں کی طرف مت جھکو کہ تمہیں بھی آگ چھو لے گی۔‘‘ اللہ تعالیٰ کا فرمان گرامی ہے: ﴿مَنْ یَّشْفَعْ شَفَاعَۃً حَسَنَۃً یَّکُنْ لَّہٗ نَصِیْبٌ مِّنْہَا وَ مَنْ یَّشْفَعْ شَفَاعَۃً سَیِّئَۃً یَّکُنْ لَّہٗ کِفْلٌ مِّنْہَا﴾ [النساء ۸۵] ’’جو کوئی سفارش کرے گا، اچھی سفارش، اس کے لیے اس میں سے ایک حصہ ہوگا اور جو کوئی سفارش کرے گا بری سفارش، اس کے لیے اس میں سے ایک بوجھ ہوگا ۔‘‘ سفارشی [شفیع] معین و مددگار ہوتا ہے۔ پس ہر وہ انسان جو کسی دوسرے شخص کی کسی بھی معاملہ میں مدد کرے تو وہ اس کا شفیع ہوگا۔ پس یہ ہر گز ہرگز جائز نہیں کہ جو چیز اللہ تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام ٹھہرائی ہو؛ اس کے لیے کسی کی مدد کی جائے ؛ خواہ وہ حاکم ہو یا کوئی دوسرا۔ ہاں اگر کوئی گنہگار ہو؛ او روہ نیکی کا کام کر رہا ہو تو نیکی کے کام پر اس کی مدد کی جائے گی۔ ایسا کرنا حرام نہیں ہے۔ جیسا کہ اگر کوئی گنہگار انسان زکوٰۃ ادا کرنا چاہتا ہو ؛ یا حج کرنا یا اپنا قرض ادا کرنا چاہتا ہو؛ یا پھر اس نے جو لوگوں پر ظلم کیا ہے؛ اس کا حساب چکانا چاہتا ہو؛ یا اپنی بیٹیوں کے متعلق وصیت کرنا چاہتا ہو تو نیکی اور تقوی کے کام پر اس انسان کی مدد کی جائے گی؛ نہ کہ گناہ اور برائی کے کام پر۔ تو پھر عام امور کے متعلق کیا کہا جاسکتا ہے؟ جہاد کا قیام حکمرانوں کی طرف سے ہوتا ہے۔ اگر حاکم ان کے ساتھ جہاد نہ کرے؛ تو پھر اہل خیر نیکو کاروں پر لازم
Flag Counter