Maktaba Wahhabi

459 - 702
ٹیکس عائد کیے۔کفار وفجار کی سر کوبی کی۔ آپ کے دور میں اسلام عزت و شرف کی معراج پر تھا۔ جس شخص میں عدل و انصاف کا شائبہ بھی پایا جاتا ہے، وہ سیّدناعمر رضی اللہ عنہ کی کمال سیرت و کردار و کثرت علم و فضل میں ذرہ بھر شک نہیں رکھتا۔ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہماکو ہدف طعن و ملامت بنانے والا دو آدمیوں میں سے ہوئی ایک ہوسکتا ہے : ۱۔ یاتوناتجربہ کار ؛جاہل؛ ملحدو منافق اور زندیق اسلام کا دشمن ہو گا جو ان پر طعن و تشنیع کرنے کو سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کو نشان طعن بنانے کا ذریعہ بناتا ہے ۔ رافضیوں کا پہلا معلم و مؤسس اسی راہ کا مسافر تھا۔ رافضیت کی بدعت اسی [بدبخت اور ملعون ]کی ایجاد ہے۔ اور باطنیہ کے سرغنوں کا بھی یہی حال ہے۔ ۲۔ یا تو پھر وہ شخص ان حضرات پر تنقید کرسکتا ہے جو انتہائی سخت جہالت اور گمراہی کا شکار ہو؛ اور اس پر ہوائے نفس کاغلبہ ہو۔ عام طور پر غالب شیعہ اسی مرض کا شکار ہوتے ہیں ۔اگرچہ وہ باطن میں مسلمان ہوں ۔ ٭ اگر رافضی کہے :چونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ معصوم تھے، اسی لیے آپ اپنی رائے سے کوئی بات نہیں فرمایا کرتے تھے۔بلکہ آپ جوکچھ بھی فرماتے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نص اور حجت ہوا کرتی تھی۔اس لیے کہ آپ امام منصوص ہیں جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امام متعین کیا تھا۔ ٭ جواب میں ہم کہیں گے : آپ کے پیٹی بھائی دوسرے اہل بدعت خوارج ہیں ‘ذرا ان کو تو دیکھو جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دائرہ اسلام ہی سے خارج کر رہے ہیں ۔حالانکہ خوارج روافض کی نسبت زیادہ دین دار ؛ زیادہ عالم اور سچے ہوا کرتے ہیں ۔ اس میں کو ئی بھی ایسا انسان ذرا بھر بھی شک نہیں کرسکتا جو دونوں گروہوں کی حالت جانتا ہو۔ صحیح حدیث میں ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ تم میں سے کوئی ایک ان کی نماز کے مقابلہ میں اپنی نماز کو اور ان کے روزہ کے مقابلہ میں اپنے روزہ کو اور ان کی تلاوت قرآن کے مقابلہ میں اپنی تلاوت قرآن کو حقیر سمجھے گا۔‘‘[حوالہ گزر چکا ہے ] ۔ ان لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی زندگی میں لڑائیاں لڑیں ۔ اور پھر ان ہی میں سے ایک آدمی نے آپ کو شہید کردیا۔ ان کے لشکر تھے ؛ ان کے پاس علماء تھے ؛ ان کے اپنے شہر آباد تھے۔اور اہل سنت والجماعت کا اتفاق ہے کہ یہ لوگ گمراہ اور بدعتی تھے۔اور صحیح احادیث کی روشنی میں ان کوقتل کرنا واجب تھا۔اور امیر المؤمنین حضرت علی رضی اللہ عنہ کے افضل کاموں میں سے ایک خوارج کے ساتھ قتال کرنا تھا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا ان کو قتل کرنے پر اتفاق تھا۔ علمائے اہل سنت کے مابین ائمہ عدل کے ساتھ مل کر قتال کرنے کے مسئلہ میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ جیسا کہ امیر المؤمنین حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ؛ لیکن کیا اہل ظلم و ستم [ظالم حکمرانوں ] کے ساتھ مل کر قتال کیا جائے گا؟ پس امام مالک رحمہ اللہ سے منقول ہے ؛ کہ ان کے ساتھ مل کر قتال نہیں کیا جائے گا۔ اور یہی فتوی ان حکمرانوں کے متعلق بھی ہے جو اہل ذمہ کے ساتھ کئے گئے عہد و پیمان کو توڑ ڈالتے ہیں ؛ ظالم حکمرانوں کے ساتھ مل جہاد نہیں کیا جائے گا۔ اور یہ بھی منقول ہے کہ آپ نے یہ جملہ کفار کے متعلق کہا تھا۔ یہ فتوی حضرت امام مالک اور
Flag Counter