Maktaba Wahhabi

429 - 702
امابعد....! قضاء [عدلیہ کاکام] ایک محکم فریضہ اور سنت ِ متبع ہے ۔ جب تمہارے سامنے کوئی معاملہ پیش کیا جائے تو پھلے اسے اچھے طرح سمجھ لو۔اس لیے کہ حق کی بات کرنا تمہیں اس وقت تک نفع نہیں پہنچائے گی جب تک حق کو نافذ نہ کردیا جائے ۔اپنی مجلس میں اور اپنے سامنے اور اپنے فیصلہ کرنے میں لوگوں کے مابین مساوات قائم کرو۔یہاں تک کہ کوئی بڑا آدمی تمہارے متعلق کوئی طمع نہ کرنے لگے ؛ اور کمزور تیرے عدل سے مایوس نہ ہو۔ گواہی دعوی کرنے والے پر ہے اور قسم منکر پر ہے۔مسلمانوں کے مابین صلح کرانا جائز ہے۔ سوائے اس صلح کے جس میں کسی حرام کو حلال کیا جائے یا کسی حلال کو حرام کیا جائے۔ اور جو کوئی کسی غائب حق کا دعوی کرے ؛ تو اسے اس حق تک پہنچنے کی مدت تک مہلت دو۔ اور اگر کوئی گواہی لیکر آئے تو اسے اس کا حق دیدو۔ اگروہ اس سے عاجز آجائے تو اس کے حق میں فیصلہ دیدو۔بیشک ایسا کرنا عذر میں زیادہ بلیغ ہے ؛ اور اندھے پن کو دور کرنے والا ہے ۔‘‘ کسی معاملہ میں اگر آج تم کوئی فیصلہ کرلو ؛ اور پھر تمہیں پتہ چلے کہ حق کچھ اور ہے ؛ تو تمہیں حق کی طرف رجوع کرنے میں کوئی چیز مانع نہ ہو۔بیشک حق قدیم ہے؛اسے کوئی چیز ختم نہیں کرسکتی۔حق کی طرف رجوع کرلینا باطل میں سرکشی کرنے سے بہتر ہے۔مسلمان آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ عدل کرنے والے ہیں ۔سوائے اس انسان کے جس کے جھوٹ بولنے کا تمہیں تجربہ ہوچکا ہو۔یا جس کسی کو حد میں کوڑے لگے ہوں ؛ یا جو اپنی ولاء یا نسب پر اترانے والا ہو۔ بیشک اللہ تعالیٰ لوگوں کے اسراروں کا کارساز ہے۔حدود کے معاملہ میں ان پر پردہ رکھا جائے سوائے اس کے کہ ان پر گواہی پیش کی جائے یا پھر وہ قسم اٹھالیں ۔پھرجو مسائل آپ کے ساتھ پیش آئیں ‘یا پھرآپ کے پاس معاملات لائے جائیں اور ان کا حل کتاب وسنت میں موجود نہ ہو تو انہیں اچھی طرح سے سمجھ لینا چاہیے اورخوب سمجھنا چاہیے؛اور پھر انہیں باقی امور سے قیاس کرلینا چاہیے۔اور ان کے اشباہ وامثال کی معرفت بھی حاصل کرنی چاہیے۔ پھر اس کے مطابق فیصلہ کرنا چاہیے جو حق کے زیادہ مشابہ ہو؛ اورایسا کرنا جو اللہ کے ہاں زیادہ پسندیدہ ہو۔ خبردار اورخبردار ! غصہ نہ کرنا ‘پریشان بھی نہ ہونا؛ کسی کو ڈانٹنا بھی نہیں ‘اور نہ ہی فریقین میں سے کسی کو کوئی تکلیف دینا۔ اس لیے کہ حق کے ساتھ فیصلہ کرنے سے انسان کے لیے اجر واجب ہوجاتا ہے۔ اور اسے اچھے الفاظ میں یاد کیا جاتا ہے ۔ جس انسان کی نیت حق کے لیے خالص ہوگی ؛ بھلے اس کی ذات پرہی بات کیوں نہ آتی ہو؛اللہ تعالیٰ اس کے لیے لوگوں کی جانب سے کافی ہوجاتے ہیں ۔جو ایسی زینت اختیار کرے جوکہ اس میں نہیں ہے ؛اللہ تعالیٰ اسے ذلیل کر دے گا۔ بیشک اللہ تعالیٰ اپنے بندے سے صرف وہی عمل قبول کرتا ہے جو صرف اس کی رضا کے لیے خالص ہو۔پھر اللہ کے ہاں اس ثواب کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے جو اس کے جلدی ملنے والے رزق میں بھی ہے اور اس کی رحمتوں کے خزانوں میں بھی ۔‘‘
Flag Counter