Maktaba Wahhabi

403 - 702
سکتا ہے ۔ اس لیے کہ اس معاملہ میں حق تو صرف ایک ہی ہوسکتا ہے ۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے قبلہ کا رخ متعین کرنے میں دو اجتہاد کرنے والوں کی ۔ جب ان میں سے ہر ایک کسی ایک سمت کو قبلہ مان لے ۔ تو ان میں سے ہر ایک کا مقصد اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت ہے ۔ اور جس طرف کو بھی قبلہ سمجھ کر وہ نمازپڑھ لیں گے تو ان سے نماز کافریضہ ساقط ہوجائے گا۔ لیکن ان میں سے جس نے قبلہ کا صحیح تعین کیا وہ ایک ہی ہوگا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہوتا ہے کہ وہ کسی کو معرفت حق اور اس پر عمل کرنے کی توفیق اور قدرت سے نواز دے۔ ایسے انسان کا اجر بھی بہت زیادہ ہے ۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ فرمایا طاقتور مومن اللہ کے نزدیک کمزور مومن سے بہتر اور پسندیدہ ہے ؛ اور ان میں سے ہر ایک میں خیر ہے ۔‘‘ [مسلم ] ایسے ہی جس عورت کے ساتھ مہر مقرر کیے بغیر نکاح کیا جائے اس کے بارے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فیصلہ کیا تھا کہ خاوند کی موت کی صورت میں عورت کا مہر ساقط ہو جاتا ہے[1] حالانکہ بروَع بنت واشق نامی عورت کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ کیا تھا کہ اسے وہ مہر دیا جائے گا جو ان کے خاندان میں عام طور سے رائج ہے۔[2] ایسے ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ابوجہل کی بیٹی کو اپنے نکاح میں لانے کا ارادہ کیا تھا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر ناراضگی کا اظہار کیا تو یہ ارادہ ترک کردیا۔[3] ایسے ہی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہماکو تہجد کی نماز پڑھنے کا کہا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے تقدیر سے احتجاج کیا۔جب آپ نے فرمایا : کیا تم تہجد نہیں پڑھتے ؟ توحضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا : ’’ بیشک ہماری جانیں اللہ کے ہاتھ میں ہیں ۔ جب اللہ تعالیٰ کا ہمیں جگانے کا ارادہ ہوتا ہے تو ہم جاگ جاتے ہیں ۔تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پیٹھ پھیر کر چلے گئے اور آپ اپنی ران پر ہاتھ مارتے ہوئے فرما رہے تھے : ’’ انسان بہت زیادہ جھگڑا کرنے والا ہے ۔‘‘ اس قسم کے اور بھی واقعات ہیں ۔ ایسے واقعات جب مبنی بر اجتہاد ہوں تو اس سے حضرت علی رضی اللہ عنہ یا دیگر اہل علم کی شان میں کچھ قدح وارد نہیں ہوتی۔خصوصاً جب کہ وہ حق کی طرف رجوع بھی کرلیں ۔تو ایسے ہی اس طرح کے واقعات حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شان میں بھی موجب ِ قدح نہیں ہوسکتے۔ جبکہ آپ نے حق واضح ہونے کے بعد اس کی طرف رجوع بھی کرلیا ہو۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ جن امور سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا رجوع کرنا ضروری تھا وہ ان امور کی نسبت تعداد میں بہت زیادہ ہیں جن سے رجوع کرنا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے لیے ناگزیر تھا۔ اس کے باوصف حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اکثر امور سے
Flag Counter