Maktaba Wahhabi

395 - 702
﴿ قَالَتْ یٰلَیْتَنِیْ مِتُّ قَبْلَ ھٰذَا وَ کُنْتُ نَسْیًا مَّنْسِیًّا﴾ [مریم ۲۳] ’’ بولی کاش! میں اس سے پہلے ہی مر گئی ہوتی اور لوگوں کی یاد سے بھی بھولی بسری ہو جاتی ۔‘‘ یہ ایسے نہیں ہے جیسے قیامت والے دن موت کی تمنا کی جائے گی۔ اور اسے جہنمیوں کے قول کی طرح بھی قرار نہیں دیا جا سکتا جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ وہ کہیں گے: ﴿وَنَادَوْا یَامَالِکُ لِیَقْضِ عَلَیْنَا رَبُّک﴾۔[الزخرف ۷۷] ’’ اوروہ آوازلگائیں گے اے مالک تمہارے رب کو معاملہ ختم کردینا چاہیے ۔‘‘ ایسے ہی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿وَلَوْ اَنَّ لِلَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا وَّمِثْلَہُ مَعَہٗ لاَفْتَدَوْا بِہٖ مِنْ سُوْٓئِ الْعَذَابِ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَبَدَا لَہُمْ مِّنْ اللّٰہِ مَا لَمْ یَکُوْنُوْا یَحْتَسِبُوْنَ﴾ [الزمر۴۷] ’’اگر ظلم کرنے والوں کے پاس وہ سب کچھ ہو جو روئے زمین پر ہے اور اس کے ساتھ اتنا ہی اور ہو، تو بھی بدترین سزا کے بدلے میں قیامت کے دن یہ سب کچھ دے دیں اور ان کے سامنے اللہ کی طرف سے وہ ظاہر ہوگا جس کا گمان بھی انہیں نہ ہوگا ۔‘‘ یہ معاملہ آخرت کے متعلق خبر کا تھا؛ جب توبہ کرنا یا ڈرنا کوئی فائدہ نہ دے گا۔جب کہ دنیا کی زندگی کا معاملہ مختلف ہے۔ ظاہر ہے کہ مومن کا دنیا میں اﷲسے ڈرنا ان اعمال میں سے ہے جن پر اللہ تعالیٰ ثواب سے نوازے گا۔ جو دنیا میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے ‘ اللہ تعالیٰ اسے قیامت والے دن امن میں رکھیں گے۔ جو کوئی مؤمن کے دنیا میں اللہ سے ڈرنے کو کافر کے بروز آخرت اﷲسے خائف ہونے کے برابرکرتا ہے ۔ وہ اسی انسان کی مانند ہے نور وظلمت اور دھوپ و سایہ؛ زندہ اور مردہ کو مساوی شمار کرتا ہے۔ جو شخص امارت و خلافت سے بہرہ ور ہو کر عدل وانصاف کی راہ پر گامزن رہے؛ اور لوگ اس کے عدل و انصاف کی گواہی بھی دیتے ہوں ؛ مگر اس کے باوصف اﷲسے ڈرتا ہو کہ مبادا وہ کسی پر ظلم کر چکا ہو۔ وہ اس شخص کی نسبت افضل ہے جس کی رعیت اسے ظالم تصور کرتی ہو اور اس کے باوجود وہ اپنے اعمال پر ناز کرتا ہو؛ اور اپنے آپ کو آخرت کے عذاب سے امن میں سمجھتا ہو۔حالانکہ یہ دونوں اہل جنت میں سے بھی ہوسکتے ہیں ۔ خوارج جو کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کافر کہتے تھے ‘ وہ اعتقاد رکھتے تھے کہ آپ ظالم ہیں ‘ اس لیے قتل کیے جانے کے مستحق ہیں ۔حالانکہ وہ اپنے اس نظریہ میں گمراہ اور غلطی پر تھے۔مگر اس کے باوجود وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی تعظیم کرتے تھے ‘ آپ کی حسن سیرت کے معترف اور عدل و انصاف کے مداح تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ عدل میں ضرب المثل تھے۔حتی کہ کہاجاتا ہے : دونوں عمر کی سیرت ۔ اس میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کی مثال بیان کی جاتی ہے اورانہیں برابر سمجھا جاتا ہے ۔ یہ اہل علم محدثین جیسے امام احمد رحمہ اللہ وغیرہ کا قول ہے۔ یا اس سے مراد ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہمالیے جاتے ہیں ؛ جیسا کہ اہل لغت کا ایک گروہ مراد لیتا ہے ۔ جیسے ابو عبید وغیرہ ۔ ہر دو اعتبار سے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اس مثال میں شمار ہوتے ہیں ۔ یہ بات بھی سبھی جانتے ہیں کہ کسی انسان کے اپنے نفس پر گواہی دینے سے زیادہ اہمیت اس کی رعیت کی اس کے لیے گواہی ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُہَدَآئَ عَلَی النَّاسِ وَ یَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ
Flag Counter