Maktaba Wahhabi

372 - 702
سے تیسرا حصہ لے گی؛ اور بقیہ مال والد کے لیے ہوگا۔اور اگر اس کے ساتھ دادا موجود ہو تو وہ سارے مال میں سے تیسرا حصہ لے گی۔[1] جمہور صحابہ اور علماء کا یہی مذہب ہے ؛ سوائے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے؛ اس لیے کہ ماں دادا کی نسبت زیادہ قریبی ہوتی ہے ۔ اور دادی کی مثال بھی دادا کی طرح ہے۔ ماں والد کے ساتھ تیسرا حصہ لے گی۔ اور دادی دادا کے ساتھ صرف چھٹا حصہ لے گی۔ اس سے دادا کو تقویت ملتی ہے۔ اس لیے کہ بھائی جدِ ادنی کے ساتھ ایسے ہی ہیں جیسے چچا جداعلی کے ساتھ ۔ مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ جدِ اعلی کو اعمام پر مقدم کیا جائے گا۔ ایسے ہی جدادنی[قریبی دادا] کو بھائیوں پر ترجیح ہوگی۔ اس لیے کہ بھائیوں کی دادا کے ساتھ نسبت ایسے ہی ہوتی ہے جیسے چچاؤں کی نسبت پردادا کے ساتھ ۔اس لیے کہ اگر بھائی ؛ باپ کے بیٹے ہونے کے اعتبار کے دادا کے ساتھ شریک ہوسکتے ہیں ؛ تو بھتیجوں کے متعلق بھی ایسے ہی فیصلہ کیا جائے گا۔ جیسے پوتے اپنے والد کے قائم مقام ہوتے ہیں ؛ تو باپ کے بھائیوں کا بھی ایسے ہی مسلہ ہوگا۔ اور اس کے برعکس بیٹے ہیں ۔ جب دادا کے لیے بیٹوں کے ساتھ حصہ مقرر ہے؛ تو پوتوں کے ساتھ بھی اس کا حصہ ویسے ہی ہوگا۔ جبکہ وہ حجت جوحضرت علی اور حضرت زید رضی اللہ عنہماسے روایت کی جاتی ہے کہ بھائی دادا کے ساتھ شریک ہو گا ۔ وہ اسے درخت کے تنے سے تشبیہ دیتے ہیں جس سے ڈالے ؛ اور ڈالوں سے شاخیں نکلتی ہیں ۔ کوئی بھی ٹہنی تنے کی نسبت ڈالے کے زیادہ قریب ہوتی ہے۔اورپھر اس نہر سے تشبیہ دیتے ہیں جس سے دوسری نہر نکالی گئی ہو۔ اور پھر ان کے آگے تالاب بنے ہوں ۔ پس یہ تالاب اصل نہر کی نسبت فرعی نہر کے زیادہ قریب ہوتے ہیں ۔ اس سارے مضمون کا خلاصہ یہ ہے کہ: بھائی دادا کی نسبت میت کے زیادہ قریبی ہوتے ہیں ۔ اور جو کوئی شریعت کے اصولوں پر تدبر کرے گا؛ تو اسے معلوم ہو جائے گا کہ حضرت ابوبکر اور جمہورصحابہ رضی اللہ عنہم کی دلیل و حجت کا مقابلہ نہیں ہوسکتا۔اس لیے کہ ان کی دلیل اگر صحیح ہے تو پھر بھتیجے دادا کی نسبت زیادہ قریبی ہوں گے۔اورچچاپردادا کی نسبت زیادہ قریبی ہوگا۔ اس لیے کہ بھائیوں کی دادا سے ویسے ہی نسبت ہوتی ہے ؛ چچاؤں کی نسبت پردادا سے۔پس جب مسلمانوں کا اجماع ہوگیا کہ پردادا چچا کی نسبت زیادہ قریبی ہوتا ہے؛ تو دادا کا بھائیوں کی نسبت قریبی ہونا زیادہ اولیٰ ہے۔
Flag Counter