Maktaba Wahhabi

371 - 702
احمد رحمہ اللہ سے بھی ایک روایت میں یہی منقول ہے۔دلیل کے اعتبار سے یہی مسلک قوی تر ہے۔اس لیے یہ کہا جاتاہے کہ:’’ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فتوی دینے میں غلطی کی تھی۔بخلاف دوسرے صحابہ کرام کے ۔ [اور جو لوگ دادا کے ساتھ بھائی کو بھی وارث بناتے ہیں ؛ ان میں حضرت علی‘ زید؛ ابن مسعود اور ایک روایت کے مطابق حضرت عمر رضی اللہ عنہم شامل ہیں ۔اس میں انہوں نے جمہور فقہاء سے اختلاف کیا ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ اور احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اس ضمن میں زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے قول کو اختیار کیا ہے]۔پس دادا کی میراث کے مسئلہ میں لوگ یا تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے فتوی پر عمل پیرا ہیں یا پھر حضرت زید رضی اللہ عنہ کے قول پر؛جس کے مطابق حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی فیصلہ دیا کرتے تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے دادا کے بارے میں جو نظریہ اختیار کیا ہے ائمہ میں سے کوئی بھی اس کا قائل نہیں ۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حق حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما سے باہر نہیں ہے ۔ حضرت زید رضی اللہ عنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قاضی تھے۔ حالانکہ ابو بکر رضی اللہ عنہ کا قول حضرت زید رضی اللہ عنہ کے قول سے زیادہ راجح ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ دادا کی میراث میں توقف کرتے تھے ۔آپ فرمایا کرتے تھے : ’’ میں چاہتا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لیے تین مسئلے کھل کر بیان کیے ہوتے : دادا کی میراث ؛ کلالہ؛ اور سود کے ابواب ۔‘‘ جب اس بات پر مسلمانوں کا اجماع قائم ہو چکا ہے کہ جد اعلیٰ چچا کی نسبت اولیٰ ہے، تو جدادنیٰ بھائیوں سے اولیٰ ہو گا۔ جو لوگ یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ بھائی دادا کے شریک ہوتے ہیں ان کے اقوال میں شدید تناقض پایا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کئی ایک مواقع پر دادا کو باپ کہا ہے؛ فرمان الٰہی ہے: ﴿کَمَآ اَخْرَجَ اَبَوَیْکُمْ مِّنَ الْجَنَّۃِ ﴾[الاعراف ۲۷] ’’جیسے تمہارے والدین کو جنت سے نکالا۔‘‘ اور فرمایا :﴿مِلَّۃَ اَبِیْکُمْ اِبْرٰہِیْمَ ﴾[الحج ۷۸] ’’تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی امت ۔‘‘ اور فرمایا :﴿یا بنی اسرائیل ﴾ اور فرمایا :﴿یا بنی آدم ﴾ یہ الفاظ قرآن میں کئی ایک مقامات پر استعمال ہوئے ہیں ۔ جب پوتا بیٹا بن سکتا ہے ؛ تو دادا باپ بھی بن سکتا ہے۔ اور اس لیے کہ دادا کے باپ کے قائم مقام ہونے میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں ہے بیشک ولد الام ساقط ہو جاتا ہے؛ اور اسے باقی تمام عصبات پر ترجیح حاصل ہوتی ہے بیٹوں کے علاوہ؛ جیسے باپ۔دادا بھی بیٹوں کے ساتھ چھٹا حصہ لے گا جیسے باپ لیتا ہے۔ اورفرائض اور عبہ دونوں بیٹیوں میں جمع ہوں گے جیسے باپ میں ہوتے ہیں ۔ جہاں تک عمریتین کا مسئلہ ہے ؛یعنی شوہر اور والدین ؛ یا بیوی اور والدین ؛ پس بیشک اس صورت میں ماں باقی مال
Flag Counter