Maktaba Wahhabi

368 - 702
خبرنہیں ملتی۔ اس کی وجہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا کمال علم و عدل اور ان دلائل کی معرفت تھی جن سے اختلاف کی جڑیں ہی ختم ہوسکتی ہیں ۔ آپ کے دور میں جب بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مابین اختلاف پیدا ہوتا توحضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ایسے دلائل سے اس کا مقابلہ کرتے کہ آپ کی حجت فیصلہ کن ثابت ہوتی اور نزاع و اختلاف ختم ہوجاتا۔اکثر و بیشتر فیصلہ کن دلائل حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس ہی ملتے تھے۔ آپ کی موجودگی میں بہت کم ایسا ہوتا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ یا کوئی دوسرا صحابی اپنی رائے کا اظہار کرتا اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اسے برقرار رکھتے تھے۔ یہ دلیل ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور ان کی رعیت ؛ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور ان کی رعیت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور ان کی رعیت ؛ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کی رعیت سے افضل تھے ۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس امت کے افضل ترین لوگ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور پھر ان کی رعیت تھی۔پھر وہ اقوال جن میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی موت کے بعد آپ سے اختلاف کیا گیا ہے ؛ ان میں اختلاف کرنے والے کے مقابلہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا قول ہی راجح ہے۔ اس کی مثال دادا کے ساتھ بھائی کی میراث کے مسئلہ کو لیجیے ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور جمہور صحابہ دادا کی موجودگی میں بھائی کو وراثت سے ساقط قرار دیتے ہیں ۔اس مسئلہ میں علماء کے کئی طوائف کا یہی قول ہے ۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اسی مسلک پر ہیں ۔ جبکہ امام شافعی رحمہ اللہ کے اصحاب میں سے ایک گروہ؛ اورامام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اور ان کے ساتھی جیسے شافعیہ میں سے : ابو العباس ابن سریج رحمہ اللہ اور حنابلہ میں سے ابو حفص البرمکی رحمہ اللہ کا یہی مسلک ہے ‘ اور امام احمد رحمہ اللہ سے بھی ایک روایت میں یہی منقول ہے ۔ رحمہم اللہ ۔ اور جو لوگ داداکے ساتھ بھائی کو وراثت دینے کا کہتے ہیں ‘ جیسے حضرت علی اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما ؛ ان کے مابین اختلاف بڑا مشہور ہے۔ان میں سے ہر ایک اپنے قول میں دوسرے کے خلاف کہہ رہا ہے ۔ اوراس قول میں باقی سارے صحابہ سے منفرد ہے ۔ اس بارے میں ہم نے کئی جگہ پر تفصیل سے کلام کیا ہے ۔ اور اس بارے میں ایک مستقل کتاب بھی لکھی ہے۔ اورہم نے واضح کیا ہے کہ جمہور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا موقف ہی حق اور ثواب ہے اور یہی وہ راجح قول ہے جس پر شرعی دلائل کئی طرح سے دلالت کرتے ہیں ۔ اس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں ۔ ایسے ہی جو مسائل حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور میں موجود تھے وہی حق تھے ۔مثال کے طور پر : حج کو فسخ کرکے عمرہ میں تبدیل کرتے ہوئے حج تمتع کرنا ؛ اور ایک لفظ میں دی ہوئی تین طلاق کو ایک سمجھنا کہ اس سے صرف ایک ہی طلاق لازم آتی ہے؛ یہی راجح ہے نہ کہ فسخ کو حرام کہنا اور تین طلاق کو تین لازم سمجھنا۔اس لیے کہ کتاب وسنت اس پردلالت کرتے ہیں جو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے دور میں تھا۔نہ کہ کسی مخالف کا قول [اس پر کوئی توجہ نہیں دی جائے گی۔] حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ مقام کمال پر فائز تھے ؛ آپ صرف یہی نہیں کہ اس امت کے ہر ولی سے افضل ہیں ‘ بلکہ انبیاء کرام علیہم السلام کے بعد جتنے بھی لوگ حاکم بنے ہیں ‘ ان میں سب سے افضل حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں ۔آپ اولین و آخرین
Flag Counter